خطرناک اور جدید اسلحہ، طالبان کے ہاتھ کیسے لگا؟
پشاور ( دی خیبر ٹائمز خصوصی رپورٹ)
باوثوق ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنے تنظیمی ڈھانچے میں ایک نئی اور خطرناک مسلح شاخ قائم کر دی ہے، جسے ’’قطعه‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، اس منصوبے کے تحت فوری طور پر ’’قطعه‘‘ کے نام سے 8 علیحدہ علیحدہ دہشت گرد گروہ تشکیل دیے گئے ہیں، جن میں سے ہر گروہ 732 تربیت یافتہ جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔ ان گروپوں کو خود مختاری حاصل ہوگی — وہ کسی بھی کارروائی کے لیے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مقیم مرکزی قیادت سے ہدایات لینے کے پابند نہیں ہوں گے۔
ٹی ٹی پی ذرائع کے مطابق، ان گروہوں کو جدید ترین اسلحہ فراہم کیا گیا ہے، جن میں اینٹی ایئرکرافٹ گنز، ڈرونز، نائٹ وژن آلات، ریڈیو جیمرز اور ریموٹ کنٹرول ہتھیار شامل ہیں۔ ان کا ہدف سیکیورٹی فورسز، فوجی قافلے اور حساس تنصیبات ہوں گے۔ ہر ’’قطعه‘‘ یونٹ ایک خودمختار گروہ کی صورت میں گوریلا طرز کی ہائبرڈ جنگ میں مہارت رکھتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان گروپوں کے پاس جدید اسلحہ کی دستیابی باعث تشویش ہے۔ غالب امکان ہے کہ یہ ہتھیار اُن خفیہ طاقتوں کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں جو طویل عرصے سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ اسلحہ وہی ہے جو امریکی افواج نے افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑ دیا تھا، جو بعد ازاں ان گروہوں کے قبضے میں آ گیا۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس مرتبہ ٹی ٹی پی نے صرف خودکش حملہ آوروں پر انحصار نہیں کیا، بلکہ ایک مکمل ٹیکنالوجی بیسڈ عسکری ماڈل اپنایا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان کے پاس دستیاب اسلحہ جات میں درج ذیل اہم آلات شامل ہیں:
- اینٹی ایئرکرافٹ گنز – ہیلی کاپٹروں اور ڈرونز کو نشانہ بنانے کے لیے۔
- ڈرونز اور کوپٹرز – فضائی نگرانی، جاسوسی اور ممکنہ بمباری کے لیے۔
- نائٹ وژن ڈیوائسز، ریڈیو جیمرز اور ریموٹ کنٹرول ہتھیار – اعلیٰ درجے کی گوریلا کارروائیوں کے لیے۔
یہ تمام سازوسامان ایک روایتی دہشت گرد تنظیم کے بجائے ایک منظم ملیشیا کی نشاندہی کرتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دہشت گردوں کو باضابطہ عسکری تربیت دی گئی ہے۔
سنگین سیکیورٹی خطرات اور ممکنہ اہداف
اطلاعات کے مطابق، ان جدید ہتھیاروں کا استعمال جنوبی اور شمالی وزیرستان کے علاقوں میں دیکھا گیا ہے، جس سے ملک کو سنگین سیکیورٹی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ان گروہوں کی جانب سے حساس علاقوں، گوادر پورٹ اور چینی منصوبوں (خصوصاً سی پیک) کو نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر سی پیک سے منسلک شاہراہیں اب خطرے کی زد میں ہیں۔
علاوہ ازیں، ڈرونز کے ذریعے دور دراز چوکیوں اور تنصیبات پر حملوں کا خطرہ بھی بڑھ چکا ہے۔ مبصرین کے مطابق ان گروپوں کا اصل مقصد پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلانا اور ریاستی عملداری کو چیلنج کرنا ہے۔
حکومتی ردِعمل اور تجزیہ
دوسری جانب، حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے اس نئے خطرے کو مدِنظر رکھتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی آپریشنز میں تیزی لائی ہے۔ تاہم یہ محض زمینی جنگ نہیں رہی — اب یہ ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور اسٹریٹجک مہارت کی جنگ بن چکی ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق، افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ’’قطعه‘‘ یونٹس کی تربیت جاری ہے، جبکہ کچھ علاقائی قوتیں اور خفیہ ادارے انہیں خاموش یا بالواسطہ حمایت فراہم کر رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق، بھارت کی جانب سے گوادر اور سی پیک کی مخالفت کھل کر سامنے آ چکی ہے، اور کچھ عالمی قوتیں بھی چین کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں — جس کا براہِ راست نقصان پاکستان کو پہنچ رہا ہے۔
ماہرین کی رائے: “ایک جنگی چیلنج”
پشاور کے سینئر صحافی اور سیکیورٹی امور کے ماہر سید فخر کاکاخیل کے مطابق:
“یہ ایک خوفناک اور خطرناک صورتحال ہے۔ اب ملک کے سیکیورٹی اداروں کو تھوڑی بہت نہیں بلکہ مکمل سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی۔ اس صورتحال سے نہ صرف ملک کی سیکیورٹی بلکہ معاشی منصوبے بھی شدید خطرے میں پڑ گئے ہیں — خاص طور پر گوادر پورٹ سے نکلنے والی تمام شاہراہیں اور سی پیک جیسے بڑے منصوبے اس نئے خطرے کی زد میں ہیں۔”
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ’’قطعه‘‘ محض ایک گروہ نہیں، بلکہ پاکستان کے خلاف ایک مکمل جنگی چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے فوری، سخت اور ہمہ جہتی حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے۔