شمس مومند
انگریزوں کے ساتھ مہمند قوم کی معرکہ آرائیوں کی تاریخ کم و بیش ایک سو سال پر محیط ہے۔ حالانکہ یہ انگریزوں کے اقتدار کا وہ سنہرا دورتھا جب مثل مشہور تھی کہ انگریزوں کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا یعنی انگریزوں کے جابرانہ و غاصبانہ اقتدار کے سائے مغرب سے مشرق تک اور شمال سے جنوب تک پھیلے ہوئے تھے۔ اور جس طرح آج کل امریکہ دنیا کا واحد سپرپاور بن کر ابھرا ہے اسی طرح اس زمانے کی سپریم پاور برطانیہ تھی۔ اسی سپرمیسی، کبر اور طاقت کی علامت کے طور پر انگریزوں نے اپنے ملک کے نام ’برطانیہ‘ سے پہلے The Great کا لفظ لگایا۔ تاکہ دنیا والوں کو برطانیہ کا نام پکارنے کے ساتھ ہی اس کی عظمت اور بڑائی کا احساس ہو۔ لیکن دنیا وی عظمت اور بڑائی کا یہ جیتا جاگتا نمونہ اور انگریز قوم کے ذہن میں کبرو غرور کا گہرا احساس مٹھی بھر مہمند وں نے جوتے کی نوک پررکھ کر انھیں باور کرایا کہ جس طرح جنگل کبھی شیروں سے خالی نہیں ہوتا۔ اس طرح دنیا ابھی جیالوں سے خالی نہیں جو انگریزوں کی سپرمیسی کے باوجود نہ صرف انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتے ہیں بلکہ برطانیہ کی تمام تر طاقت اور اپنی بے سروسامانی کے باوجود میدان جنگ میں بھی انگریزوں کے مقابلے پر ٹھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وہ راز ہے کہ تاریخ کی کتاب The Border landکے انگریز مصنف H.C.Welly کو اعتراف کرنا پڑا کہ
“During the early years of british rule in the Peshawar valley, the mohmands gave more trouble than almost any other tribe”۔
جبکہ تاج برطانیہ کے آخری گورنر صوبہ سرحد اور دی پٹھان کے مصنف اولف کیرو کو کہنا پڑا کہ ’اٹک کا پل پار کرتے ہی ہر دیدہ وبینا کو احساس ہوجاتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں میں آگیا ہے جو اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘
مزاحمت کی اس ایک سو سالہ تاریخ میں اگر ایک طرف فتح محمد خان عرف فتح خان، خان آف پنڈیالئی، نجم الدین اخونزادہ المعروف ھڈے ملا صاحب، بھرام خان میر سید جان باچا،ملابابڑہ،ملاچکنور،ماصل بابا اور غاری عمراخان کے نام سامنے آتے ہیں تو دوسری طرف چارسدہ سے تعلق رکھنے والے حاجی صاحب ترنگزئی اس سنہرے تاریخ کے ماتھے کا وہ جھومر ہے، جس کے مزارکا حسن لازوال آج بھی مہمند نوجوانوں کو اپنی تاریخ پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔
شبقدر پر حملہ، حاجی زئی پل پر حملہ، میجر سکاٹ کا قتل، مچنئی اور ورسک میں حملے مہمند مجاہدین کی جرات و بہادری کی انمٹ داستان ہے۔ مگر اس کی تفصیلات کے لئے راقم الحروف کی کتاب (مہمند قبائل۔۔ کل اور آج) ملاحظہ کیجئے۔ یہاں ہم صرف ان لڑائیوں کی تفصیلات بیان کرینگے جس میں حاجی صاحب ترنگزئی کا کردار رہا ہے۔
1915 سے 1932 تک حاجی صاحب ترنگزئی، میر سید جان باچا، ملابابڑہ، ملاچکنور، ماصل بابا، غاری عمراخان وغیرہ نے اپنی جددوجہدجاری رکھی۔ وہ لشکرتیار کرکے کبھی سبحان خوڑ کے قریب بلاکیڈلائن ( مچنئی سے ابازئی تک بچھائی گئی خاردارتار اور اس پر قائم چوکیاں ) تباہ کرنے کی کوشش کرتے۔ کبھی انگریزوں کے حمایت یافتہ اور مراعات یافتہ ملکان کے خلاف کارروائی کرتے۔ اس دوران مہمند عوام کو معاشی پابندیوں کیوجہ سے بھی سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ خصوصاًنمک اور کپڑے کی پابندی کی وجہ سے اور مجاہدین کو دو مرتبہ ہوائی جہازوں کی بمباری کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن نہ تو مجاہدین کے پایہ ثبات میں لغزش پیدا ہوئی نہ مہمندعوام کے حوصلے پست ہوئے یہی وجہ تھی کہ انگریزوں کو 1932 سے 1936تک نحقی اور گندھاب میں مزید تباہیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اور یہاں اکثر کار راوئیوں کی سربراہی بیماری کے باوجود حاجی صاحب ترنگزئی کر رہے تھے۔
آخری معرکے 1932-33 میں ایک مرتبہ پھر اپر مہمند کے عوام اور مجاہدین نے حلیمزئی قوم پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ انگریزوں کی حمایت تر ک کرکے مجاہدین کا ساتھ دے جب یہ دباؤ لشکر کشی اور مہم جوئی کی شکل اختیار کرنے لگا تو حکومت برطانیہ نے حلیمزئی سے کئے گئے وعدے کے مطابق انکی حفاظت کے لئے دو بریگیڈفو ج روانہ کردی اس فوج نے ڈنڈ،غلنئی اور نحقی کے مقامات پر پڑاؤ ڈالے۔ اور جہاں بھی اسے لشکر کی موجودگی کی اطلاع ملتی تو وہ ہوائی جہازوں اور توپوں کے ذریعے ان پر بمباری کرتے اس دوران حکومت نے یوسف خیل تک سڑک بنانے کا کام بھی شروع کردیا۔
3ستمبر 1932کو غلنئی کے مقام پر لوئر مہمند اور حکومتی نمائندوں کے درمیان ایک جرگہ منعقد ہوا جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیاکہ یوسف خیل تک سڑک کو مکمل ہونے دیا جائیگا۔اپر مہمند امن کی ضمانت دیں گے یا حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کا اختیار ہوگا 5ستمبر کو ڈنڈ کے مقام سے ایک بریگیڈ فوج نے حرکت کرکے غلنئی میں پڑا ؤ ڈالا۔اسی شام ایک برطانوی جہاز (1)کو مجاہدین نے اس وقت مار گرایا جب وہ نحقی میں مورچہ زن مجاہدین پر بمباری کررہا تھا۔جہاز تباہ ہو گیا لیکن اسکا پائلٹ پیراشوٹ چھتری کے ذریعے چھلانگ لگا کر یوسف خیل کیمپ تک بھاگنے میں کامیاب ہوا۔
1933-34کے دوران حاجی صاحب ترنگزئی،ماصل بابا،غازی سیال مومند اور فقیر آف الینگار کی طرف سے انگریز فوج کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں۔لیکن اسکی شدت میں کمی آرہی تھی کیونکہ اب حلیمزئی اور ترکزئی کی اکثریت نے بوجوہ جنگ سے ایک قسم کی کنارہ کشی اختیار کرلی تھی جبکہ عیسیٰ خیل،برہانخیل اورصافیوں کے خلاف معاشی پابندیاں لگادی گئیں۔ہوائی حملوں کے بعد یہ لوگ بھی کنارہ کش ہو گئے۔
1935میں حاجی صاحب ترنگزئی نے ایک اور لشکر تیار کرکے ڈنڈ اور کڑپہ کے مقامات کو اکھاڑنا شروع کیا، اس لشکر کی اکثریت خویزئی اور بایزئی اقوام پر مشتمل تھی دیگر اقوام کے بہت کم لوگ اس میں شامل تھے انگریزوں نے اس لشکر کے خلاف بھی ہوائی جہاز استعمال کئے اور مجاہدین کو نقصان اٹھانا پڑا۔
آخر میں کمالی کا میدانی علاقہ ناقابل رسائی رہا لیکن ستمبر 1935کے آخری ہفتے میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نحقی سے انگریز فوج نے رات کی تاریکی میں مارچ کیا اور کمالی موضع موذی کور میں واقع برج اور اسکے قرب وجوار کے گاؤں کو مسمار کردیا۔ اگر چہ اس کارروائی میں انگریزوں کو مالی وجانی نقصان بھی اٹھانا پڑا لیکن اسے کامیابی حاصل ہوچکی تھی اور یہی وجہ تھی کہ 2اکتوبر 1935کو ایک بااختیار مہمند جرگہ نے پہلے فورس کمانڈر سے ملاقات کرکے معاملات طے کئے اور بعد میں 15 اکتوبر 1935 کو گورنر شمال مغربی سرحدی صوبہ نے گندھاب شاتی کور میں 700سے (1) زائد نمائندہ ملکان سے ملاقات کی اور ایک سرسری معاہدہ طے پایا۔جسکے مطابق باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانا فریقین کی ذمہ داری تھی۔حکومت کو نحقی تک سڑک کی تکمیل اور بعد میں اسکی مرمت کی اجازت دی گئی۔البتہ حکومت نے سڑک کی تکمیل کے ساتھ ہی فوج کو علاقہ گندھاب سے واپس بلانے کی شرط تسلیم کرلی۔ 30 اکتوبر کو سڑک کی تعمیر کا کام مکمل ہوا۔اور اگلے ہی روزیعنی یکم نومبر انگریز فوج نے گندھاب سے شبقدر کے لئے واپسی شروع کردی۔
اگر چہ ایجنسی کے مختلف مقامات میں انفرادی واجتماعی چھوٹے بڑے ٹکراؤ قیام پاکستان تک جاری رہے۔لیکن حقیقت میں گندھاب کا یہی معاہدہ فریقین کی سوسالہ جدوجہد کے بعد باعزت امن کی خواہش کا اظہار ہے۔
حاجی میا ں خان سکنہ غنڈئی کلے گندہاب مہمندایجنسی 1930 سے 1936 تک مہمند مجاہدین اور انگریزوں کے درمیان لڑائیوں کے چشم دید گواہ ہے۔ اس کے علاوہ 1948 میں کشمیر جہاد میں انھوں نے خود با چا گل ولد حاجی صاحب ترنگزئی کی سربراہی میں حصہ لیا تھا۔ اور غازی بن کر لوٹے تھے۔ 2005 میں راقم سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا۔
جب 1930 میں انگریزوں نے پہلا لام کیا۔ یعنی انھوں نے شبقدر سے کوچ کرکے بازار غنڈئی (چندہ) اور گورمے (میاں منڈی سے مغرب کی طرف) میں پڑا و ڈالا۔ اس وقت میری عمردس سال تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ ایک دن یہ لوگ گشت پرتھے۔ ان کے اوپر ایک عجیب دو چھتہ سا جہاز چکر لگا رہا تھا۔ ہم کمرے کے اوپر کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے کہ نحقی کنڈاؤ (پہاڑ) سے جہاز پر فائرنگ ہوئی۔ او ر اس نے آگ پکڑلی۔ چند لمحوں میں جہاز پہاڑ کے دامن میں گر کر تباہ ہوگیا۔ لیکن پائلٹ چھلانگ لگا چکا تھا۔ مجاہدین نے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن دوسری طرف سے انگریز فوجی اس کے قریب پہنچ چکے تھے۔ اور اسے اپنی حفاظت میں لے لیا۔ 1930 میں مقامی لوگوں نے انگریزوں سے بالکل تعاون نہ کیا۔ بلکہ مجاہدین کا ساتھ دیتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں بہت کم عرصے بعد واپس شبقدر لوٹنا پڑا۔
پہلے لام میں ناکامی کے بعد انگریزوں نے حلیمزئی اور ترکزئی اقوام کو ( خاصہ دار ) کی شکل میں مراعات دئے۔ 1932 میں دوسرا لام ہوا۔ اس دفعہ انگریزوں نے موجودہ یوسف خیل کیمپ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا جبکہ مجاہدین حاجی صاحب ترنگزئی کی سربراہی میں غازی بیگ اور درہ پہاڑی کے چوٹیوں پر مورچہ زن تھے۔ بعد میں درہ پہاڑی پر بڑا معرکہ ہوا۔ اس میں انگریزوں کے تو پچی چندہ کے مقام سے گولہ باری کرتے۔ اور توپوں اور مشین گنوں کا شدید استعمال ہوا تھا۔ اس لڑائی میں مجاہدین نے کامیابی حاصل کی اور دو انگریز افسروں کے سرکاٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ بعد میں ملک انمیر اور ملک عزت جان نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ انھوں نے غازی بیگ میں حاجی صاحب ترنگزئی اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کی۔ اور اسے انگریزوں کے ساتھ معاہدے پر آمادہ کیا۔ بمقام گنجیان (غنڈئی کلے) معاہدہ ہوا۔ اور مقتولین کے سرواپس کردئے گئے۔ انہی سروں کو واپس لانے کے صلے میں انگریزوں نے ملک انمیر کو مہمند کا نواب قرار دیا۔ اور انھیں مراعات دی گئیں۔
انگریزوں کے خلاف مہمند مجاہدین کی اس ایک سوسالہ معرکہ آرائیوں میں اگر ایک طرف قومی رہنماؤں ( مشران ) مثلاًخان آف لال پورہ، خان آف گوشتہ، ماصل بابا، غازی سیال، غازی عمراخان وغیرہ نے میدان جنگ میں مہمند مجاہدین کی کمان کی ہے تو دوسری طرف بعض خداپرست مذہبی شخصیات جیسے حاجی صاحب ترنگزئی، نجم الدین اخونزادہ عرف ھڈے ملا صاحب، ملا چکنور، ملابابڑہ کسی میاں صاحب وغیرہ نے بھی دینی جذبے سے سرشار ہوکر اپنے فرائض سے انصاف کیا ہے
(ان واقعات کی مزید تفصیلات اور حوالوں کے لئے تاریخ کی کتاب مہمند قبائل “کل اور آج “ملاحظہ کرے)
ایک نظر یہاں بھی: جو وقت کی گردو غبار میں دفن ہو چکا ہے۔ تحریر : احسان داوڑ