جمہوریت کے نام پر ڈاکوسلا ؟؟ تحریر : سید زاہد عثمان

پاکستان کے تمام مسائل کا حل جمہوریت ہے اور اگر جہموریت نہ رہی تو پاکستان کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا، کئی دہائیوں سے ملک کو بے دردی سے لوٹنے والوں کے گرد جب حصار تنگ ہونے لگتا ہے پھر ایک اور نعرہ اُبھر کے سامنے آتا ہے، جسکی شدت کو دیکھ کر اس نظام سے جڑے سب لوگ اسکا حصہ بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں، وہ نعرہ ہے “جمہوریت خطرے میں ہے”کسی ایک فرد یا کئی افراد کے ہونے نہ ہونے سے جو نظام خطرے میں پڑجائے، وہ نظام نہیں اُسکو آسان الفاظ میں گینگ کہاجاسکتا ہے، کیونکہ کسی گینگ کے سرغنہ کے پکڑے یامارے جانے کے بعد پوری کی پوری گنگ کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے، اور پاکستان میں موجود نظام جمہوریت نہیں اس میں جمہور کے لئے کیا ہے؟ سیوائے ذلت، رسوائی ،غربت اور مقروض ہونے کے انصاف کے نام پر بندر تماشا پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی جماعت کہنا بھی سیاست کی توہین ہے، بلکہ یہ سب مختلف گنگز ہیں، جن کا کام ملک کو لوٹنا ہے طریقہ واردات سب کا مختلف کوئی عوام کے نام پر کوئی ملک کے نام پر کوئی قومیت اور کوئی اسلام کے نام پر لوگوں کو لگاتار لوٹتے چلاجارہا ہے، اگر کوئی آج بھی کہتا ہے جمہوریت تمام مسائل کا حل ہے یا تو وہ جہالت کی وجہ سے کہہ رہا ہے یا وہ پھر جہالت سے یہ بات کررہا ہے ایک جہالت جمہوریت کی تعریف سے ناآشنائی دوسری جہالت اسلامی تعلیمات اور نظام حکومت سے بے خبری اسلام ایک دین سے زیادہ کامل ضابطہ حیات کے تصور اور عمل کا نام ہے حضورؐ سے بڑا لیڈر کوئی گزراہے؟ بغیر جمہوریت کے اُس نے جوکیا کوئی کرسکا؟ خلفائے راشدین نے کونسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے رومی اور فارسی سلطنتوں کو تہہ تیغ کروایا؟ کچھ نہیں صرف اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حق حقدار تک پہنچایا عدل وانصاف کا دامن نہیں چھوڑا اسمیں کوئی دورائے نہیں آج جو کہتے ہیں جمہوریت پاکستان کی ضرورت ہے اُسکا اس میں یا تو حصہ ہے یا وہ کسی نا کسی طریقے سے اس سے مستفید ہورہا ہے “جمہوریت نظام کفر ہے “اس نام سے منسوب کتاب کو ڈھونڈلیں شائد آفاقہ ہو؟ اگر کسی کو قرآن وسنت پر اعتبار نہیں یا کوئی نہیں مانتا ماننے والے یعنی مسلمانوں کو پھر چاہئے کہ وہ قرآن کو سنت کو سمجھ لیں خلفاء کی زندگی پر بہت کچھ تاریخ میں موجود ہے پورا نظام موجود ہے وہ نظام جس میں خلیفہ جب چراغ جلاتے تھے سرکاری کام ختم ہوتا تو وہ بجا دیتے وہ نظام جسمیں خلیفہ صرف تنخواہ لیتے تھے وہ بھی صرف اُتنی جو اُسکے ضروریات کو پورا کرسکے، حضرت عمر بن عبدالعزیز جو چھٹے خلفائے راشد تھے اُس کے تن پر ایک جوڑ کپڑے جس میں مرنے کے اُسے دفنایا گیا میٹھا کانے کو دل کیا گھر میں کچھ نہیں بیوی نے صرف اُسے میٹھا کھلانے کے لئے پیسے جوڑنا شروع کردئے کئی دنوں بعد گھر میں میٹھا یعنی سوئیٹ ڈش بنی، جب آپ کے سامنے وہ ڈش پیش کی گئی آس نے پوچھا کہاں سے لائی ہو؟ فاطمہ بیوی نے کہا گھر میں اپنی خرچ سے تھوڑے تھوڑے پیسے جوڑ کر بنایا ہے آپ نے چھپ چھاپ کھانے کے بعد خزانچی کو بلایا اور کہا میری تنخواہ میں سے اتنے پیسے کاٹ لو یہ میری ضرورت سے زیادہ ہیں، پھر بھی لوگ انگریزوں کے فرسودہ نظام سے متاثر ہوکر اسکو سب سے بہتر گردانتے ہیں، ایسی باتوں کو سن کر اُنہیں عقل پر ماتم کے سیوا انسان کرے بھی تو کیا؟ اسلامی نظام حکومت ہی عوام کی خوشحالی کا نام ہے اُسکو اپنانے کا سوچ کر باہر نکلیں جو درحقیقت تمام مسائل کا حل ترقی خوشحالی،عدل وانصاف کی ضمانت دیتی ہے

یہ بھی پڑھئے : ہم دیکھیں گے!انصاف کیسے تحریر : زاہد عثمان


کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں