ہم دیکھیں گے!انصاف کیسے تحریر : زاہد عثمان

آئی جی پی خیبر پختونخوا ڈاکٹرز ثناءاللہ عباسی نے پولیس اہلکاروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا خیبر نیوز کے پروگرام “حجرہ جومات” میں نہ صرف اعادہ کیا بلکہ عامرے تہکالی کے ساتھ کئے گئے ظلم میں ملوث پولیس اہلکاروں اور افسروں کو گندے انڈے کی لقب سے یاد کیا ایک اور سوال کے جواب میں انصاف کے تقاضوں نے متعلق آئی جی صاحب نے واضح طور پر یہ معاملہ وقت پر چھوڑ دیا کہ وقت بتائیگا انصاف ہوتا ہے اور کیسے اس سب معاملے کے لئے عدالتی کمیشن بھی تشکیل دی گئی ہے اور آئی جی صاحب سے وزیر اعلیٰ نے چوبیس گھنٹوں میں رپورٹ طلب کی تھی وہ رپورٹ کہاں ہے اور اُسمیں کیا ہے کیوں وہ ابھی تک عام لوگوں اور میڈیا کی نظر سے اوجھل ہے اس سے پہلے پولیس پر سے اپنے پیٹی بند کو بچانے کا بھی الزام لگا وہ الزام بھی درج شدہ ایف آئی آر کی وجہ سے لگا کیونکہ متعلقہ اہلکاروں کے نام سے زیادہ اُسمیں کچھ نہیں تھا کوئی قانونی شق دفعہ اُسمیں شامل نہیں تھا

یہ بھی پڑھئے:  صلاح الدین سے عامر تہکالی تک ۔۔۔۔۔تحریر : زاہد عثمان

جیسا کہ آئی جی صاحب نے وقت کی بات کی تھی اب وہ وقت بھی تقریباً پورا ہونے کو ہے ایک وقت پوراہوا نتیجہ نہیں نکلا عدالتی کمیشن کیا کرتی ہے اسکا بھی نتیجہ نکل آئیگا ہم لاکھ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو برا کہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس سے آنکھیں چرانا سراسر ناانصافی اور پولیس کے اُن ساڑھے چودہ سو شہداء کے ساتھ زیادتی ہے جنہوں نے اس صوبے اس ملک اور عام لوگوں کو بچانے کی خاطر جان کے نذرانے پیش کئے سبکو ایک لاٹھی سے ہانکنا اُس ظلم و ناانصافی سے بڑھکر ہے جو عامرے نامی جوان کے ساتھ ہوئی۔جیسا کہ کالم کے موضوع سے اپ اندازہ لگا سکتے ہیں ہم دیکھیں گے ہم نے دیکھنا ہے انصاف کے تقاضوں کو ہم نے انصاف ہوتا ہوا دیکھنا ہے نہ کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو نشانہ بنا کر چند لوگوں کی غلطی کو سب کے گلے کا ہار بنانا ہے جیسا کہ ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح ممکن نہیں ہزاروں ماوں کے سپوت ایک جیسے ہوں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے جیسے سبکے فنگر پرنٹس ایک دوسرے سے نہیں ملتے اسطرح مزاج اور دماغ،اگر ملکی سطح پر کمیشنوں کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو نتائج کچھ زیادہ خوشگوار اور تسلی بخش نہیں ایسے واقعات کے لئے بنائے گئے کمیشنوں کی تاریخ بھی لگ بھگ پچاس سال پرانی ہے پچھلے پچاس سال میں ایکا دوکہ واقعات کے علاوہ سب کے نتیجے میں فائل شدہ رپورٹس سرکاری الماریوں کی زینت سے بڑھکر کچھ نہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں کچھ بدل نہیں سکتا یا کچھ ہوگا نہیں وقت بدل گیا ہے لوگ بدل گئے مفادات بدلے ہیں اور واقعات کی نوعیت بھی اُمید کا دامان ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ہمیں اعتبار کرنا ہوگا اپنے اداروں پر اور ذمہ دار لوگوں پر کیونکہ احتجاجوں سے ہم زیادہ سے زیادہ املاک کو نقصان دے سکتے ہیں وہ بھی جو ہمارے ٹیکس کے پیسوں پر بنے ہیں اور دوبارہ ہم سے وصول کئے جائیں گے

*کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے​
*آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو​

*پہلی سیڑھی پر قدم رکھ ،آخری سیڑھی پر آنکھ​
*منزلوں کی جستجو میں رائیگاں کوئی پل نہ ہو

َایک نظر یہاں بھی :  مثالی پولیس اور مثالی کارنامہ؟ آفاقیات، تحریر رشید آفاق،



مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

3 تبصرے “ہم دیکھیں گے!انصاف کیسے تحریر : زاہد عثمان

اپنا تبصرہ بھیجیں