انٹرویو: غنی الرحمٰن
یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ کھلاڑیوں کے دم سے ہی دنیامیں پاکستان کانام جانا اور پہنچانا جاتاہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور خصوصاًخیبر پختونخواکے نوجوان کھلاڑی انتہائی باصلاحیت ہیں، جنہوںنے اپنی صلاحیتوں کے بدولت سبزہلالی پرچم کوبین الاقوامی میدانوںمیں ہمیشہ سربلند رکھاہواہے، جب بنیادی سہولیات وسرپرستی نہ تھی تب بھی ہمار ے مرد وخواتین کھلاڑیوں نے خود کو منوایا جو کہ آج کے جدید سہولیات کی فراوانی میں بھی ناممکن ہے، شاہد یہ بہت کم ہی لوگوں کے علم میں ہوگا کہ کھیلوں کے عالمی اُفق پرانہی جگمگاتے ستاروں میں ایک نام ایک نام خیبر پختونخواکے ضلع مردان سے تعلق رکھنے والی انٹرنیشنل اتھلیٹ شبانہ خٹک کا بھی ہیں، جنہوںنے نامساعدحالات اور سہولیات و سر پرستی کے باوجود اپنی محنت کے بلبوتے پر اتھلیٹکس کی دنیامیں وہ کارہائے نمایاں انجام دی ہیں جسے جتنے بھی سراہا جائے وہ کم ہے، شبانہ خٹک پشاور یونیورسٹی کی بیسٹ اتھلیٹ رہی اورکئی ناقابل شکست ریکارڈ بناچکی ہیں جو آج تک قائم ہیں ، جبکہ 2001 کو ایران میں منعقدہ اسلامک سالیڈیرٹی گیمز کے اتھلیٹکس ایونٹ کے 60 میٹر کے دوڑ میں پاکستان کیلئے سیلور میڈل جیتنے میں کامیاب ہوئیں، شبانہ خٹک واحد خاتون کھلاڑی تھی جنہوں نے سپورٹس کے اس بڑے فورم پر کھیل کر خود کو منوایا، اسکے علاوہ کامن ویلتھ گیمزمیں بھی پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل کیا، یہی نہیں بلکہ انہوں نے کوریا میں ہونیوالے ورلڈ یونیورسٹی گیمز میں بھی حصہ لیا اورپاکستا ن کی بھر پور نمائندگی کرتی ہوئی 100 میٹر ،200 اور 400 میٹر کے دوڑ میں شاندار کارکردگی دکھائی ، ایونٹ کے ارگنائزر اور حکام نے انکے کھیل ، قابلیت اور محنت کوبے حد سراہا، پاکستان میں یہ خبر نہ صرف نہایت مسرت کے ساتھ سنی گئی، بلکہ میڈیا نے بھی اس خبر کو بہترین کوریج دی اورشبانہ خٹک کی حوصلہ افزائی کی، وہ پاکستان میں ہونیوالے سیف گیمز کیلئے قومی ٹیم میں بھی سلیکٹ ہوئی تھی اگر یہ ایونٹ میں ہوتا تو وہ سونے کا تمغہ ضرور حاصل کرلیتی کیونکہ وہ ان دنوں پوری عروج پر تھی، اس خاتون اتھلیٹ کوصوبے سے اتنی محبت تھی کہ ساری زندگی خیبر پختونخوا کیلئے کھیلتی رہیں، ڈیپارٹمنٹس والوں کی انتہائی منت وسماجت کے باوجود کسی محکمے میں ملازمت اختیار نہیں کی ، وہ اتھلیٹکس کی دنیا میں بڑا نام کمانا چاہتی تھی لیکن چونکہ انکے مشورے وسرپرستی کا کوئی نہیں تھاتو کھیل کو خیر بادکہتی ہوئی تعلیمی اداروں میں خواتین کھیلوں کو فروغ دینے اوراپنی طرح مزید کئی کھلاڑیوں کو دنیا میں متعارف کرانے کیلئے باچاخان یونیورسٹی چارسدہ میں بحیثیت ڈائریکٹر سپورٹس اپنی خدمات انجام دے رہی ہے ، جہاں پر شعبہ کھیل کو پروان چڑھایا اور انہی کی قیادت میں باچاخان یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے اسلام آباد میں منعقدہ کامیاب جوان ڈرائیو سپورٹس گیمز میں بھر پور شرکت کی، انکے سٹوڈنٹس نے اپنی بہترین ڈسپلن اور جاندار پرفارمنس کے باعث حکام اور مختلف یونیورسٹیوں کے حلقوں سے خوب داد حاصل کی ۔پشاور پہنچنے پر سیدھا باچاخان یونیورسٹی گیا جہاں پر شبانہ خٹک سے ملاقات کی ، اس دوران سے جب سوال کیا کہ وہ اتھلیٹکس کی جانب سے کیسے آئیں، تو انکا کہنا تھا کہ وہ سکول لیول پر مختلف کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لیا کرتی تھی لیکن دراصل وہ والی بال کی کھلاڑی تھی تاہم ٹیبل ٹینس اوربیڈمنٹن میں بھی کافی مہارت حاصل تھی ، جب انہیں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج مردان میں داخلہ ملاتو وہاں مس گلنار نے انکی بہت حوصلہ آفزائی کی اور انہی کی سپورٹ کی وجہ سے کھیلوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتی رہی ، اس وقت پشاور تعلیمی بورڈ کے زیر اہتمام قیوم سٹیڈیم میں منعقدہ گرلز انٹر کالجز کے اتھلیٹکس کے ایونٹ میں 100 اور 200 میٹر میں پہلی پوزیشن پر آئی ، ساتھ ہی لانگ جمپ ، ہائی جمپ اورجیولن تھرو میں بھی صف اول رہی، تو بس ان کی واہ واہ ہوگئی ، انہوں نے کہا کہ جب اسلام آبادمیں منعقدہ بین الصوبائی انڈر 16 اتھلیٹکس چمپئن شپ کیلئے سلیکٹ ہوئی ، تو وہاں جاکر پہلی پوزیشن لی ، جبکہ 100میٹر کے رکاوٹوں کے دوڑ میں برائونز میڈل اپنے نام کیا اور اس طرح والی بال، ٹیبل ٹینس اور بیڈمنٹن کی بجائے اتھلیٹکس سے ناطہ جوڑ لیا اور باقاعدہ اتھلیٹکس کی ٹریننگ لینا شروع کردی اور روزانہ کی بنیاد پرمردان سے آکر قیوم
سٹیڈیم کے ٹارٹن ٹریک پر ٹریننگ کیاکرتی تھی، اس وقت انکے ساتھی اتھلیٹ میں کھلاڑی میں محمد شاہ ، جعفرشاہ اور زعفران آفریدی شامل تھے۔ شبانہ خٹک نے کہا کہ تعلیمی بورڈ کے انٹر کالجز سمیت یونیورسٹی کے مقابلوں میں بھی 100 میٹر 200 اور 400 کے دوڑ سمیت رکاوٹوں کے دوڑ میں نمایاں مقام بنایا، انکا کہنا تھا کہ وہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج مردان کی واحد اتھلیٹ تھیں جو 100، 200 ریس کی چمپئن رہی، بلکہ 100 میٹر کے رکاوٹوں کے ریس میں 14.9 سیکنڈ کا ناقابل شکست ریکارڈ بنایا جو آج بھی قائم ہے جو نیشنل ریکارڈ بھی ہے ، ہائی جمپ میں ریکارڈ بن گیا، 4.1 یعنی چار فٹ ایک انچ ، اسکے علاوہ پشاور یونیورسٹی کی چار سال 2000 2001،2002 ،2003 بہترین اتھلیٹ بھی رہی ہیں جن کے ہائی جمپ کے 4.5 یعنی چار فٹ پانچ انچ، شارٹ پٹ میں.4 32 فٹ ، ڈسکس تھرو میں 115 فٹ اور لانگ جمپ میں 18 فٹ کے چار ریکارڈ ہیں جو ابھی تک یہ ریکارڈ کسی نے نہیں توڑے، جو نیشنل سطح کے ریکارڈز ہیں، انہوں نے بتایا کہ 2001 میں نیشنل گیمز کیلئے پشاور میں ہونیوالے اوپن ٹرائلزحصہ لیا اور ٹیم میں سلیکٹ ہوگئی، ایسے جذبے سے کھیلی کہ خیبر پختونخوا کیلئے گولڈ میڈل جیتا، اسکے ساتھ ہی ان پر آگے جانے کے تمام تر دروازے کھل گئے اور پاکستان اتھلیٹکس فیڈریشن کی نظریں ان پر پڑی اور2001 ہی میں انہیں ہمسایہ ملک ایران میں منعقدہ اسلامک سالیڈیرٹی گیمز کے اتھلیٹکس ٹرائلزمیں طلب کیا اور اللہ کے فضل سے قومی ٹیم میں جگہ بنالی، کیمپ میں رہ کر مزید ٹریننگ حاصل کی ، جب ایران گئی تو ویاں کچھ اس طرح دوڑیں کہ کبھی سوچابھی نہیں تھا، اس ریس میں اس وقت کی ایران کی تیز ترین اتھلیٹ کے برابر دوڑی چونکہ وہ ہائٹ میں زیادہ تھی فنش پوائنٹ پران کا سر مجھ سے آگے ہوا، محض اس بنیاد پر انہیں پہلی پوزیشن کی حقدار ٹہرائی گئی ، جس کے بعد ایونٹ کے آرگنائزر نے انکی جیت کابس یہی وجہ بتائی، شبانہ خٹک نے مزید کہا کہ وہ پشاور یونیورسٹی کی جانب سے متعددبار آل پاکستان انٹر ورسٹی اتھلیٹکس چمپئن شپ میں کھیلی اور سرفہرست رہیں، جس کے بعد کوریا میں منعقدہ ورلڈ یونیورسٹی کے اتھلیٹکس کیلئے قومی ٹیم کا حصہ رہی، اور کوریا میں بھر پور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے سب کو حیران کردیا، کامیابی کا سلسلہ یہی نہ روکا بلکہ کامن ویلتھ گیمز کیلئے بھی ٹرائلز کے ذریعے قومی ٹیم میں شامل کیاگیا اور کامن ویلتھ گیمزمیں بھی صلاحیتیں کھل کر مظاہرہ کیا، اس بڑے فورم پر شریک اتھلیٹس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا جس سے ان کے کھیل میں مزید نکھارآیا۔ ایک سوال کے جواب میں شبانہ خٹک نے کہا کہ چونکہ اس وقت کے اتنے سہولیات نہیں تھے لیکن کھلاڑیوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ ضرور تھا، ان جیسے کئی دوسرے کھلاڑی خواہ وہ اتھلیٹکس کے تھے یا دوسرے کھیلوں سے وابستہ تھے صرف وصرف اپنی محنت کے بدولت خود کو منوایا اور پاکستان کو بہتر شناخت دی ہے، لیکن ہمارے کھلاڑی کب تک محض اپنی ذاتی کوششوں اور شوق کی بنیاد پر آگے بڑھتے رہیں گے۔
دنیا بھر میں سپورٹس کے شعبے کو کسی بھی دیگر تعلیمی و پروفیشنل شعبے کی طرح اہمیت دی جاتی ہے، میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان ان خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، یہ سر زمین اتھلیٹکس کیساتھ ساتھ کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، والی بال، جمناسٹک، ووشو، کراٹے، باکسنگ اور سکواش کے حوالے سے بے شمار جگمگاتے ستاروں سے بھری ہوئی ہے۔ انِ میں سے کچھ اپنی ذاتی محنت، شوق اور لگن کے بل بوتے پر میدان میں پہنچ کر شائقین اور بین الاقوامی دنیا کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں، تو کئی ایسے بھی ہیں جو سہولتوں کی عدم فراہمی، وسائل کی عدم دستیابی اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے سبب گمنامی کے اندھیروں میں کھو جاتے ہیں، پہلے کے ادوار میں پاکستان کا تاثر عالمی دنیا میں بہت بہتر تھا، کھلاڑی اور ٹیمیں پاکستان کی سرزمین پر آنے اور کھیلنے کیلئے تیار ہوتے تھے بلکہ پاکستانی کھلاڑیوں کو دوسرے ممالک میں بخوشی اور عزت کیساتھ مدعو بھی کیا جاتا تھا، انہوں نے کہاکہ تعلیم، صحت، بنیادی ضروریات زندگی کی عدم فراہمی اور دیگر شعبہ جات میں تو عوام کو مشکلات کا سامنا ہے ہی لیکن سپورٹس بھی ایک ایسا ہی شعبہ ہے جس میں دلچسپی محض بورڈز بنانے اور ان میں من چاہے افراد کی تعیناتی تک ہی محدودہے۔انہوں نے موجودہ دور میں کھیلوں کی اہمیت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں بتایا، کہ سپورٹس کسی بھی صحت مند معاشرے کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں جو معاشرے میں مثبت رجحانات اور صحت مند مقابلے کو پروان چڑھاتے ہیں، اسی لئے دنیا بھر میں ممالک اور قومیں سپورٹس میں نہ صرف خاص دلچسپی لیتے ہیں بلکہ اپنے ملک کو اس شعبے میں آگے بڑھانے کے لئے قابل قدر کارنامے بھی انجام دیتے ہیں، جس کی ایک مثال پڑوسی ملک میں شروع ہونے والے لیگ گیمز سے دی گئی۔ اسکے برعکس پاکستان میں اس ضمن میں بہت کم کام دیکھنے میں آتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کالج اور یونیورسٹی لیول پر طالبِ علموں کیلئے محض سپورٹس کوٹہ ہی کافی نہیں، بلکہ ان سپورٹس کی باقاعدہ تربیت کے لئے ایسے ٹریننگ کیمپس اور ادارے بنانے کی بھی ضرورت ہے جہاں سے نوجوان استفادہ کر سکیں۔شبابہ خٹک نے کہا کہ ہمیں سپورٹس کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو ایک روشن مثال، پرعزم، اور مثبت معاشرے کے طور پر دنیا کے سامنے لانا ہے، جو سپورٹس کی اہمیت سے واقف ہے اور بلا تخصیص جنس و مذہب ٹیلنٹ کو پروان چڑھاتا ہے۔ ضرورت اسِ بات کی ہے کہ ہمیں ایسے لیڈرز اور پالیسی ساز ملیں جو سپورٹس کی اہمیت کو سمجھیں اور ہمارے نوجوانوں میں بسے ٹیلنٹ کو ابھاریں اور انہیں آگے بڑھائیں تاکہ آنے والے کل میں پاکستان کا نام کھیلوں کی دنیا میں بھی اسی طرح روشن ہو جس طرح آج سے صرف چند دہائیوں پہلے ہوا کرتا تھا۔ ورنہ اگر حکومتی سرپرستی نہ ملی تو کئی ستارے گمنامی کی نذر ہوتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ باچاخان یونیورسٹی میں کھیلوں کو فروغ دینے اور یہاں سے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے جذبے کے تحت آئی ہیں اور انشا اللہ اس مقصد میں انہیں کامیابی نظر آرہی ہے کیونکہ انکی خوش نصیبی یہ ہے کہ باچاخان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد جیسے ایماندار ، محنتی اور ٹیلنٹ کا قدردان شخصیت ملے ہیں اور انہی کے قیادت میں کئی باصلاحیت کھلاڑی پیدا کرکے تعلیمی اداورں میں باچاخان یونیورسٹی کو ایک نمایاں پہچان دینے میں کامیاب ہوجائیںگی۔
