محترم عمرا ن خان صاحب!
آپ چونکہ سپورٹس کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے میرا یہ خط ذاتی ہے تاہم اس میں ذاتی مسئلہ ڈسکس نہیں کررہا بلکہ ایک قومی مسئلے کی طرف آپ کی توجہ دلاناچاہتا ہوں . کیا سپورٹس کاروبار ہے؟
ایک ایسا کاروبار جس میں نقصان کبھی نہیں ہوتا ہاں نقصان ہوتا ہے تو صرف کھلاڑی کا۔۔۔ اور میں ایسا ہی ایک کھلاڑی ہوں..
اس سے پہلے میں نے صحافی کو خط لکھا تھا جس کے جواب کا ابھی تک انتظار ہے مجھے پتہ ہے کہ صحافی اس خط کا جواب نہیں دیں گے کیونکہ ان کی دکانداری متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور اپنی دکان بند ہونے کے ناطے صحافی کبھی بھی سپورٹس کے شعبے میں سچ نہیں لکھیں گے۔۔۔ نلکہ یوں سمجے کہ سچ کے ساتھ زبردست خونی دشمنی چلی آرہی ہے۔۔۔۔
میرے اس خط کو لکھنے کا بنیادی مقصد اکیڈمی کے بڑھتے ہوئے کاروبار کی طرف توجہ دلانا ہے ۔۔۔
کوئی ٹرسٹ کے نام پر اپنا دکان چلا رہاہے اور کوئی ذاتی حیثیت میں.۔۔۔۔ آپ کی ہی حکومت میں کھیل ایک کاروبار بن کر رہ گیا ہے ، کھیلنے کے میدان جو کبھی کھلاڑیوں کیلئے کھلے ہوتے تھے آج کھلاڑیوں کیلئے بند ہیں.۔۔۔۔ ممبر شپ کے نام پر فیسوں کی وصولی کی جاتی ہیں.۔۔۔۔ پشاور صوبائی دارالحکومت ہے۔۔۔ لیکن یہاں کھیلنے کے میدان ہیں کہاں ؟؟
بچے گلیوں میں کھیلتے ہیں سرکار کے جو میدان ہیں وہاں پر ماہانہ فیس دیکر داخلے ملتے ہیں.۔۔۔۔
جناب عمران خان !
آپ نے تحصیل کی سطح پر کھیلوں کے میدان بنانے کا اعلان کیا تھا تحصیل کی سطح پر کھیلوں کے میدان تو شائد اگلے دس سال بعد بن جائیں اور اس کیلئے آپ نے کھیلوں کے ایک ہزار منصوبوں کا پراجیکٹ بھی شروع کیا ہے۔۔۔ جس میں من پسند افراد کو کھپایا گیا ہے. لیکن خیر.. ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کس کو کھپایا گیا ہے. لیکن اس پراجیکٹ کا بڑے شہروں بشمول پشاور، ایبٹ آباد اور نوشہرہ کے علاوہ کیا فائدہ ہے کیونکہ اس میں دوسرے شہروں کو شامل نہیں کیا گیا.. آپ زرا ٹی اے ڈی اے کا خرچہ چیک کریں پھر لگ جائیگا پتہ.. جبکہ ابھی تک نچلی سطح کے ملازمین بھرتی بھی نہیں کئے گئے..
محترمی وزیراعظم صاحب!
کھیلوں کی مختلف اکیڈمیاں پشاور میں کام کررہی ہیں ایک اکیڈمی جو ایک شہید کے نام پر بنائی گئی ہیں اس پر ہر سال مقابلے کروائے جاتے ہیں بہت بڑا دفتر بھی سرکار کے اپنے ہی بلڈنگ میں قائم کیا گیا ہے جس میں بہت سارے لوگوں کا روزگار چل رہا ہے، کوئی یہ پوچھ لے کہ ان نام نہاد اکیڈمیوں نے گذشتہ پندرہ سالوں میں کتنے کھلاڑی پیدا کئے؟؟؟ کسی بھی کھیل کے میدان میں.. کیا مخصوص ڈیپارٹمنٹ کے کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو کھیلنے کیلئے مواقع فراہم کرنا ان اکیڈمیوں کا کام ہے.. اور ایسے افراد بھی ان اکیڈمی کے نام پر چلنے والے ٹرسٹ میں شامل کئے گئے ہیں جن کا کھیل سے کبھی واسطہ بھی نہیں رہا.
اکیڈمی کے نام پر چلنے والے اس کاروبار ی مقابلوں میں ہر دفعہ اعلی حکومتی عہدیداروں سے رقوم کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ “جی ہم اکیڈمی چلا رہے ہیں اور بڑے وسائل خرچ ہوتے ہیں” لیکن کوئی ان اکیڈمیوں کا ریکارڈ بھی چیک کریں کہ کس طرح سرکاری وسائل کا استعمال کرکے چونا سب کو لگایا جارہا ہے؟؟
کوئی یہ بھی چیک کریں کہ ان اکیڈمیوں نے اب تک کتنے کھلاڑی پیدا کئے؟؟
اوران اکیڈمی سے وابستہ افراد کے گھر پہلے کہاں تھے اور آج کون کونسے پوش علاقوں میں رہائش پذیر ہوگئے ہیں؟؟؟
ان کے اثاثے کہاں تک پہنچ گئے ہیں ؟؟ آپ کو لگ جائیگا پتہ.. مہان مہان شخصیات کا .. جن کے چہرے بھی کالے ہیں اور دل بھی کالے…
جناب عالی ۔۔۔۔
اکیڈمیوں کے نام پر چلنے والے اس کاروبار میں ” کھیلوں کا فروغ” کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن فروغ کہاں پر ہیں ؟؟اور فروغ کتنا ملا ؟؟؟ ان صاحبان کو جو ان نام نہاد اکیڈمیوں سے وابستہ ہیں.. اور ان کا بجٹ کتنا ہے؟
میر ے پہلے والے خط پر بہت سارے صحافیوں کو آگ لگی ہیں اور اب بھی مزید آگ لگنے کی پوری توقع ہے., لیکن کیا اس ملک میں شہیدوں کے نام پر دو نمبر کا گھناؤنا کاروبار جائز ہے؟؟؟
اگر جائز ہے، اور انہیں شرم نہیں آتا؟؟؟
تو مجھے بھی ان پر تھرس نہیں آتا۔۔۔۔۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ انہیں ان باتو سے کوئی سروکار نہیں اور وہ اس کی بھی پرواہ نہیں کرتے؟ تو مجھے بھی اپنے پیٹی بند بھائیوں کو مسلسل ننگا کرنے پر کوئی ندامت نہیں۔۔۔ مزید بھی تسلسل کیساتھ ایسے انکشافات آپ کے نوٹس میں لانے کا رابطہ جاری رہیگا۔۔۔شکریہ۔۔۔۔۔۔ ایک متاثرہ
یہ بھی ایک نظر دیکھئے : صاحب ، بی بی اور کھیلوں کے ایسوسی ایشنز ۔۔۔۔۔ مسرت اللہ جان