تحریر : یاسر حسین
جہاں دنیا بھر کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہیں ہمارا ملک بھی اس وائرس کی زد میں ہے ، وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں کوئی شک نہیں کہ احتیاطی تدابیر کے تحت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ، سندھ ، بلوچستان ، پنجاب یا خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ سمیت گورنرز بھی عوام کو ریلیف دینے میں پیش پیش ہیں ، لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ ہمارے صوبے خیبر پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان اسکرین سے مکمل طور پر آؤٹ ہیں ، البتہ وزیر اعظم عمران خان جب پشاور آئے تو ہمیں تصاویر کے ذریعے ان کی زیارت کا شرف نصیب ہوا, ورنہ وہ تو مجال ہے گورنر ہاؤس سے باہر بھی نکلیں ، گورنر شاہ فرمان ، مجھے اچھی طرح یاد ہے تحریک انصاف جب ڈمی پارٹی ہوا کرتی تھی تو خیبر پختونخوا کے صدر اسد قیصر کے ساتھ جنرل سیکرٹری شاہ فرمان ہوا کرتے تھے ، میری پہلی ملاقات ان سے 2009ء میں ہوئی, وہ ملنسار ہونے کے ساتھ ساتھ ہنس مکھ بھی ہیں یہ صفت ان کی پرسنیلٹی کو چار چاند لگا دیتی ہے، نیٹو سپلائی کے خلاف جب تحریک انصاف نے حیات آباد چوک میں دھرنا دے رکھا تھا تو شاہ فرمان اس وقت کے میڈیا کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے ، بلکہ اک روز شام کے وقت میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو وہ الفاظ مجھے کبھی نہیں بھولیں گے جب شاہ فرمان صاحب کہہ رہے تھے ،، یاسر دعا کرو ہم اقتدار میں آئیں تو میڈیا نے جتنا ہمارا ساتھ دیا اور دے رہا ہے میں اپنے میڈیا کا بھرپور ساتھ دوں گا، آپ لوگوں کی وجہ سے ہی ہمیں لوگ پہنچاتے ہیں ، وہ کون سا دن ہو گا جب میں بھی سرکاری گاڑی میں بیٹھوں گا ، پشاور کی تقدیر بدل کر رہوں گا ، شاہ فرمان صاحب کا تعلق پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر سے ہے ، وہاں کے لوگ شاہ فرمان صاحب کو قریب سے جانتے ہیں ، جتنے ملنسار شاہ فرمان ہوا کرتے تھے اب گورنر کی مسند ملنے کے بعد آج عوام تو دور کی بات میڈیا کے دوستوں کو بھی نہیں پہچانتے ، شاید کرسی نے ان کو رشتے تعلق سب سے آزاد کر دیا ہے ، ویسے یہ حقیقت ہے شاہ فرمان صاحب دن کو زیادہ آرام کرتے ہیں اور رات کو وہ جاگ کر صوبے کی صورتحال پر نگاہ رکھتے ہیں ، 2013ء میں جب تحریک انصاف کو صوبے کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع ملا تو انہیں اطلاعات کا محکمہ دیا گیا لیکن ان کی دیرینہ عادت دن کو سونے اور رات کو جاگنے والی نہیں گئی اسی لیے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے انہیں پبلک ہیلتھ کا محکمہ سونپ دیا، وزیر اعظم عمران خان جب بھی پشاور آتے تو شاہ فرمان سے گپ شپ لگائے بغیر نہ رہتے ، کبھی کبھی تو وہ انہیں نافرمان پکارتے ، گورنر سندھ ہو یا پنجاب ، آج کل اس مشکل وقت میں وہ حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں لیکن گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان کورونا وائرس سے ایسے ڈرے ہوئے ہیں کہ گورنر ہاؤس سے باہر نکلنا انہیں گوارا نہیں، گورنر ہاؤس میں میرے ایک مہربان کا کہنا ہے شاہ فرمان صاحب نے کورونا وائرس اپنے اوپر ایسا سوار کر رکھا ہے کہ وہ کمرے سے بھی باہر نکلنے سے پہلے خصوصی اسپرے کرواتے ہیں ، اپنے آبائی علاقے جو کچھ ہی کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے وہاں جانا تو دور کی بات گورنر ہاؤس کے سامنے وزیر اعلی ہاؤس بھی نہیں جاتے ، پورا دن خواب خرگوش اور رات ڈھلی تو موبائل کے ساتھ مگن، شاہ فرمان صاحب یہ نہیں جانتے کہ ان کی مانیٹرنگ اس بار بڑے تگڑے انداز سے کی جا رہی ہے، یہ مشکل وقت گیا تو شاید ان پر خان صاحب کی طرف سے مشکل وقت نہ آ جائے، اس بار بھی جب وزیر اعظم عمران خان پشاور آئے تو وہ گورنر ہاؤس نہیں گئے اور انہیں بریفنگ بھی مکمل طور پر وزیر اعلی محمود خان دیتے رہے، ہمارے زندہ دل شاہ فرمان صاحب کو اللہ نے اتنا بڑا موقع دیا کہ وہ اپنے صوبے بالخصوص پشاور کی ترقی کے لئے کام کرتے لیکن آج بھی ان کی پسندیدہ عادت نیند نے انہیں پشاور کی خدمت کرنے سے محروم رکھا، شاہ فرمان صاحب بھول گئے ہیں کہ وہ گورنر سے پہلے پشاور کے سپوت ہیں وہ شاید یہ بھی بھول گئے ہیں کہ وزیر اعلی محمود خان نے پشاور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں, اپنے آبائی علاقے سوات وہ اب گئے ہیں ورنہ روزانہ کی بنیاد پر محمود خان صاحب تقریبا ہر ضلع کا دورہ کرکے اپنی موجودگی ظاہر کر رہے ہیں ، چلیں گورنر صاحب اگر آپ پشاور نہیں تو ضم شدہ قبائلی اضلاع ہی چلے جائیں تاکہ قبائلی عوام کو معلوم ہو سکے کہ ان کا ایک گورنر بھی ہے جو ان کے مسائل سننے آتا رہتا ہے ، منصب کچھ عرصے کے لئے ہوتا ہے لیکن کام کرنے والے کا نام پوری عمر زندہ رہتا ہے ، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ کام ہوتو نام کی کیا ضرورت ، آج منصب اور کام دونوں آپ کے پاس ہیں لیکن آپ کرنا شاید نہیں چاہتے ، اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے اس لئے گورنر ہاؤس کی بڑی بڑی دیواروں کو پھلانگ کر آپ نکلیں اور صوبے کے عوام کو اور کچھ نہیں تو تسلی ہی دیدیں ، اپنی حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں ، تاکہ معلوم ہو سکے کہ تحریک انصاف کی حکومت خیبر پختونخوا میں ایک پیج پر ہے۔
Load/Hide Comments