آج اگر ہم خیبرپختونخوا کے آسمانوں کی طرف نگاہ دوڑائیں تو محورِ فکر وہ غیر متوقع موسم ہیں جنہوں نے زندگی کے سب رنگ بدل دیے ہیں۔
کبھی برکھا کی بےوقت سرگوشیاں، کبھی بہار کی خشک نہریں، تو کبھی شبِ باراں میں اُمڈتا سیلاب ، یہ سب لمحہ بہ لمحہ یاد دلاتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اب بحثِ مباحثہ نہیں، بلکہ حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔
ان بےقرار موسموں نے نہ صرف انسانی خونچکاں افسانے رقم کیے، بلکہ استان کے رزق، معیشت، زراعت اور اساس کو گہرے اندیشوں سے دوچار کیا۔
ماہرین کے تخمینے کے مطابق خیبرپختونخوا سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور خشک سالی جیسے فطری عذابوں کی زد میں سب سے زیادہ ہے۔
یاد رہے کہ سن 2022 کا تباہ کن سیلاب صوبے کے 17 اضلاع کو اجاڑ گیا، چارسدہ، نوشہرہ، سوات، دیر اور ٹانک سب سے زیادہ زخم خوردہ نکلے۔
جبکہ کوہستان اور اپر دیر کے بلند و بالا پہاڑوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات میں تیس فیصد اضافے کا اندیشہ، خطرے کی نئی صورت گری کر رہا ہے۔
جنوبی اضلاع میں بارشوں کے بخل اور سرزمین کی پیاس نے فصلوں اور آبِ حیات کو سخت متاثر کیا ہے۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) اپنی بساط بھر موسمیاتی آفات کے سدباب کی خاطر گوناگوں منصوبوں پر عمل کر رہی ہے۔
فلڈ مانیٹرنگ سینٹرز، ریسکیو 1122 کی تربیت یافتہ ٹیمیں اور ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلانز (DDMPs) اب بڑی اُمیدوں کا استعارہ ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی سے مزین فلوڈ الرٹ سسٹم عرصۂ حال میں اس لئے وضع ہوا ہے کہ برسات اور دریا کی طغیانی کی بروقت خبر دے سکے۔
پی ڈی ایم اے کا ارلی وارننگ سسٹم، اب میٹ ڈیپارٹمنٹ اور سپارکو کی معاونت سے، جدید سینسرز کی مدد سے نئی ہدایات جاری کرتا ہے۔
تاہم، ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ پیغام رسانی میں تاخیر اور عوامی آگہی کی کمی اس تمام محنت کو گہنا سکتی ہے، خصوصاً دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی جمود آڑے آتا ہے۔
صوبے میں ڈی ڈی ایم ایز کی بنیاد تو ہر ضلع میں پڑی ہے، مگر ان کی کارکردگی یکساں نہیں بعض یونٹس چارسدہ، نوشہرہ اور سوات میں فعال کردار ادا کرتے ہیں، تو دیگر اضلاع وسائل و عملے کی قلت کے سبب خاموش ہیں۔
ان سب کے باوجود، پی ڈی ایم اے نے “محفوظ پاکستان مہم” کے تحت اسکولوں، کالجوں اور دیہی حلقوں میں آگاہی کا لمحہ بہ لمحہ سنگِ میل عبور کیا ہے۔
رضاکاروں کو آفات سے نمٹنے کی تربیت دی جا رہی ہے، تاکہ ہر لمحے کی صدا سن کر بروقت اقدام ممکن ہو سکے۔
ریڈیو، سماجی ذرائع اور کمیونٹی سینٹرز عوام کو بتاتے ہیں کہ خطرے کی دستک پر کون سی احتیاطی تدابیر اپنانی ہیں۔
ادارے کے مطابق، سب سے بڑی رکاوٹ فنڈز اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کی حد ہے۔
پہاڑی اضلاع میں رسائی کے مسائل، تربیت یافتہ عملے کی کمی اور ڈیٹا کی ترسیل میں تاخیر، مجموعی استعداد میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔
عالمی ادارے جیسے UNDP اور GIZ رہنمائی کی شمع تھامے معاونت فراہم کر رہے ہیں۔
لائحۂ عمل کے طور پر آئندہ پانچ برسوں کے لیے کلائمٹ ریزیلینس پلان تیار ہو چکا ہے، دریاؤں کے کناروں پر حفاظتی بند کی مضبوطی ہو، بارش کے پانی کے ذخائر کی تشکیل ہو یا مقامی حکومتوں کے تعاون سے وارننگ سسٹم کا قیام یہ سب آنے والے کل کا ضامن ہوں گے۔
مزید یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ اسکولوں کے نصاب میں ماحولیاتی آفات سے بچاؤ کی تدابیر شامل کی جائیں، تاکہ نوخیز نسل آگہی کی شعاع لے کر اُمید کی نئی روشنی بن سکے۔
آفت زدہ موسم اب روزمرہ کی حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ اجتماعی شعور، ریاستی ذمہ داری اور عوامی ہم آہنگی کے بغیر مستقبل کی آفات کہیں زیادہ جاں گسل ثابت ہوں گی۔
ماہرین کی رائے ہے: “قدرتی آفات کو ٹھیک ٹھیک روکا نہیں جا سکتا، مگر پیش بندی اور حکمتِ عملی سے ان کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے۔”
تعلیمی درسگاہوں اور کمیونٹی میں ماحول کی “حفاظت ،مستقبل کی ضمانت” جیسے موضوعات پر اجتماعات ہوں، تاکہ ہر فرد اپنے حصے کا چراغ روشن کرے، اور درآمد شدہ خطرات سے بروقت باخبر رہ سکے۔
