میرے دوست اس بات پر حیران تھے کہ ایک فلم نہ دیکھنے پر میں اتنا ناراض ہوا کہ آفس چھوڑ کر گھر آگیا۔ دراصل میرے ساتھ ایک وعدہ کیا گیا کہ اگر میں ایک اسائنمنٹ اپنے حساب سے کروں اور وہ ریٹنگ لائے تو مجھے سنٹورس میں “ڈونکی راجہ” دکھائی جائے گی۔ اسائینمنٹ کیا ریٹنگ اس حد تک آئی کہ ایک ہفتے میں اس ڈاکومنٹری کو کئی دفعہ دکھایا گیا بلکہ مارکیٹینگ والوں کے بقول جب بھی لگتا کہ کوئی شو ڈھیلا گیا تو اس کی دوبارہ ٹیلی کاسٹ روک کر وہی ڈاکومینٹری دکھائی جاتی۔ خیر اس کے باوجود ڈائیریکٹر نیوز نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ تب میرے پاس کام چھوڑنے کے علاوہ احتجاج کا دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔ آفس کے اندر ٹیم اور ماحول ایسا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی دل سے ہی کام کرنا پڑتا۔ ٹیم کے لیڈرز ایسے تھے کہ دن رات کام کے باوجود کام ہی کرنے کا دل کرتا جب تک کرسی پر ہی نیند یا موت نہ آ جائے۔ یہی وجہ تھی کہ گھر پہنچتے ہی کال آئی کہ فلم کی ٹکٹ بک کر دی گئی ہے اور یوں فلم دیکھ ہی لی۔ فلم کا اختتام میڈیا پر پابندی کی پیشن گوئی سے ہوئی جس کے لئیے بالی ووڈ کی فلم سے ڈائیلاگ مستعار لیا گیا اب تو چلے گا صرف “انٹرٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ” گویا بتا دیا گیا کہ صحافت کا خدا حافظ۔ ڈونکی راجہ ہر لحاظ سے ایک سیاسی تنقید سے بھری فلم تھی۔ اس وقت ہندوستان اور پاکستان میں ٹی وی صحافت کو سب سے زیادہ نقصان جس چیز نے پہنچایا وہ ریٹنگ ہی ہے۔ ریٹنگ کا یہ نظام ٹی آر پی یعنی ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹس کہلاتا ہے۔ یہ ٹی وی صحافت کا وہ نظام ہے کہ جس میں وہ صحافی سب سے مقبول صحافی ہے کہ جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ پیمرا( پاکستانالیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) کس چیز کا مخفف ہے تو وہ صحافی بندروں کی طرح خوف سے درخت پر چڑھ کر بولا نہیں معلوم۔ ویسے آج اگر غریدہ فاروقی سے ٹی آر پی کا بھی پوچھا جائے کہ کس چیز کا مخفف ہے تو شاید معلوم نہ ہو۔
ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ طاقتور اداروں نے اگر اس ملک کا بیڑہ غرق کیا ہے تو وہ یہی ریٹنگ کا ہی تصور ہے۔ اس کا آغاز تو مشرف دور میں ہی ہو چکا تھا جب الطاف حسین کو دکھا کر کہا جاتا کہ جو بھی اسے دکھاتا ہے اس کی ریٹنگ آتی ہے۔ یہ ریٹنگ ہے کیا؟ دراصل جس طرح اخبار کی سرکولیشن ہوتی ہے یعنی یہ بتانا کہ کون سا اخبار کتنا بکتا ہے اس اخبار کے اشتہار کے لئیے ضروری ہے کیونکہ ظاہر ہے جو اخبار جتنا پڑھا جائے گا اشتہاری کمپنیاں ان کو ہی اشتہار دیں گی کہ ان کا اشتہار زیادہ لوگ دیکھیں۔ اس طرح 2007 میں میڈیا لاجک کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا جس نے بجلی کے میٹر کی طرز پر کراچی، لاہور، فیصل اباد، حیدرآباد اور بعد ازاں کوئٹہ، پشاور میں میٹر لگائے۔ یہ میٹر گھر کے اندد ٹی وی کیبل نیٹ ورک میں لگائے جاتے۔ اس کے بدلے میں گھر والوں کو ایک ایل سی ڈی یعنی ٹی وی اور فری کا کیبل دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ پیسے بھی دئیے جاتے تھے۔ دعویٰ یہ تھا کہ ان گھرانوں کا میڈیا لاجک کے علاوہ کسی کو پتا نہیں تھا۔ اس طرح اس گھر کے جو لوگ جو چینل یا جو پروگرام دیکھتے میڈیا لاجک والے دن رات اس کا حساب رکھتے کیونکہ گھر والوں کو کہا جاتا کہ ٹی وی دن رات چالو رہے گا (کم از کم کوشش یہی کی جاتی) شروع شروع میں یہ دو سو کے لگ بھگ میٹر تھے جو آہستہ آہستہ بڑھتے گئے۔ چونکہ زیادہ میٹر کراچی میں لگے تھے اس لئیے کراچی میں بارش بھی ہوتی تو کوریج زیادہ دی جاتی تاکہ کراچی میں میڈیا لاجک کی سروس والے گھر جس کا بقول ادارے کے کسی کو پتا نہیں ہوتا تھا وہ زیادہ سے زیادہ وہ چینل دیکھتے اور ہوں ان کی زیادہ ریٹنگ آتی اور اس طرح زیادہ اور مہنگا اشتہار اس چینل کو ملتا۔ ذرا سوچئیے ہم درجن بھر جنازے اٹھاتے تو ہمارے ٹیلی ویجن کے ڈبوں پر الطاف حسین ناچ رہا ہوتا تھا۔ کیونکہ ریٹنگ تھی، صبح صبح کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، لکی مروت، پشاور، فاٹا، سوات اور بلوچستان میں لاشیں گر رہی ہوتی تھیں اور سکرین پر مارننگ ٹرانسمشن میں شادیاں اور ناچ گانے دکھائے جا رہے ہوتے۔ آپ کو یاد ہی تو ہوگا اتنی پرانی بات تو نہیں ہے۔ اس وقت چینلز نے سوچ لیا تھا کہ انٹرٹینمنٹ ہی ریٹنگ ہے۔ پھر عمران خان آئے اداروں نے کیبل اور میڈیا لاجک کو کہا یہی سب سے بڑی خبر گویا بڑی انٹرٹیننمنٹ ہے۔ اسطرح چند سو ڈبے ملک کے کروڑوں لوگوں کا فیصلہ کرنے لگے۔ ملک میں ڈبوں کی آمریت قائم کرکے خود ادارے کب انٹرٹینمنٹ بنے ان کو پتا بھی نہیں چلا۔
اس دوران ریٹنگ کے کئی سکینڈل سامنے آئے جس کا نقصان ایکسپریس گروپ کو پہنچا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔ادارے من پسند ریٹنگ لاکر یہی سوچ رہے ہیں کہ قوم کو انٹرٹینمنٹ پر لگا دیا ہے۔ میڈیا کا سیٹھ اور ہمارا سٹیٹ خود ایک مذاق بن گئے مگر مجال ہے کہ دونوں ٹس سے مس ہوں۔
میڈیا لاجک کی اپنی ویب سائیٹ کے مطابق وہ دو ہزار پچاس گھروں تک رسائی رکھتے ہیں گویا 22 کروڑ کا فیصلہ دو ہزار ڈبے کر رہے ہیں۔ صاف صاف بولے تو ایک بندہ ایک لاکھ افراد سے بھی زیادہ لوگوں کی ذمہ داری لیتا ہے کہ کون کس چینل یا پروگرام کو کتنا دیکھتا ہے اور پسند کرتا ہے اور بڑے بڑے صحافی، چینل مالکان، حساس ادارے، اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والی اشتھاری کمپنیاں اور سب سے بڑھ کر آپ اس پر یقین کر رہے ہیں۔ کیوں آپ کو عجیب سا نہیں لگتا؟ بھئ مجھے تو بہت ہی عجیب سی بات لگتی ہے۔ اگر نہیں لگتا تھا تو پھر میرے خیال میں یہ کہنا بھی چھوڑ دیں کہ میڈیا عوام کی نمائیندگی نہیں کرتا یا سچ اور ڈھنگ کے پروگرام نہیں دکھاتا یا انٹرٹینمنٹ کے نام پر جو دکھایا جا رہا ہے وہ آپ کی ثقافت نہیں کیونکہ وہ تو ان دو ہزار لوگوں کی نمائیندگی کر رہے ہیں آپ کا تو وہ کہہ ہی نہیں رہے۔ آپ بس دیکھتے رہئے۔
ڈونکی راجہ فلم میں جس جنگل کا تصور دیا گیا ہے وہ یہی تو ہے اور جنگل میں انٹرٹینمنٹ کا مطلب بھی جینگا لالا جینگا لالا۔۔۔۔
“یہ ریٹنگ ریٹنگ کیا ہے؟ سید فخر کاکاخیل” ایک تبصرہ