کوروناوائرس کے باعث مساجد کے باہر پولیس اور سکیورٹی فورسز کا پہرا دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کاش ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت یہ قحبہ خانے اور فحاشی کے اڈوں پر لگاتے تو نہ اس عذاب کا سامنا کرنا پڑتا اور نہ ہی ہمارا معاشرہ بے راہروی کا شکار ہوتا۔گناہ اس قدر عام ہوچکا ہے گناہ کے باعث آنے والی آفات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، کیا فائدہ ایسے اقدامات کا جو نقصان ہونے کے بعد کئے جائیں۔
آج سے ایک سال قبل مانسہرہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو بات آگئی کہ یہاں کے ہوٹل عیاشی کے اڈے ہیں کسی نے اس بات پر اتفاق کیا تو کسی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے جب بحث بڑھ گئی تو کہا کہ کیوں نہ خود ہی مشاہدہ کیا جائے اسکے بعد حتمی رائے قائم کی جائے۔رات کا وقت تھا گاڑی لیکر لاری اڈہ سے صدر بازار اور پھر کنگ عبداللہ ہسپتال روڈ کے ایک ایک ہوٹل میں گئے اور پوچھا کہ ہوٹل میں بندوبست ہوسکتا ہے کہ نہیں اگر یہاں انتظام نہیں ہے تو کیا ہم اپنے ساتھ جوڑی لاسکتے ہیں یقین جانئے کہ بیشتر ہوٹل انتظامیہ سے جواب ملا کہ ساری بکنگ ہوچکی ہیں اور کوئی کمرہ بھی خالی نہیں ہے جبکہ چند ایک ہوٹلز میں خود انتظامات کرنے یا اپنے ساتھ لانے کیلئے رضامندی ظاہر کی گئی۔
اس مشاہدے کے بعد اندازہ ہوا کہ مانسہرہ ہی نہیں بلکہ ہر شہر کےاکثر ہوٹلوں میں راتوں کو بدکاری ہوتی ہے، شراب کی محفلیں سجتی ہیں، چند سال قبل تک شراب ایک معیوب چیز سمجھی جاتی تھی مگر اب یہ فیشن بن چکی ہے، ہائی فائی محفلوں میں جانا ہے تو آپکو شرابی ہونا ضروری ہے یا پھر اسکی لت ڈالنی پڑے گی تبھی آپ اس محفل میں بیٹھے کے قابل ہوگے ورنہ پینڈو گوار سمجھے جاوگے اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ان ہوٹلوں میں کیا کیا رنگ رلیاں منائی جاتی ہیں کیا اس سے پولیس ناواقف ہے یا پھر پولیس کے ایما کے بغیر ایسا ہوتا ہے۔۔۔؟ ہر گز نہیں ! مصیبت یا اللہ کے عذاب سے بچنا ہے تو ان عوامل کو ختم کرنا چاہئے جسکی وجہ سے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاکہ عذاب نازل ہونے کے بعد تدابیر ڈھونڈنے کی نوبت نہ آئے۔
Load/Hide Comments