ضم شدہ قبائلی اضلاع کی پہلی خاتون صحافی رضیہ محسود، ایک عزم اور ایک ولولے کا دوسرا نام۔۔۔(انٹرویو: احسان داوڑ)

اگر کوئی ننھا سا پودا نکلتے ہی کسی بھاری پتھر کے نیچے دب جائے تو غالب امکان یہ ہے کہ یہ پودا اپنی موت اپ مر جائے گا لیکن اگر پھر بھی جوں توں کر کے یہی پودا تناور درخت بن جائے تو سمجھیں کہ اسی پودے میں کچھ تو بات ہے۔ رضیہ محسود کی مثال بھی ایسی ہی ایک ننھے پودے کی سی ہے جو قبائلی علاقوں کے سخت گیر ماحول میں پلنے بڑھنے کے باوجود معاشرے کی تمام تر سختیوں سے نبرد ازما ہے اور دنیا کے خطرناک ترین علاقے سے صحافت جیسے جان جوکھوں والی پیشے سے وابستہ ہے۔
جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والی رضیہ محسود پہلی باضابطہ خاتون صحافی ہیں جنھوں نے ایک ایسے وقت میں صحافت کو بطور پیشہ اپنایا جب قبائلی علاقوں میں صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کو سخت قسم کے جانی و مالی خطرات کا سامنا تھا اور ایک درجن سے زائد سینئر صحافیوں کو قتل کردیا تھا جبکہ درجنوں دیگر صحافیوں نے اپنے اپنے علاقوں کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ایسے وقت میں ایک ایسے علاقے سے صحافت کو بطور پیشہ اپنا نا جہاں خواتین کو کسی طور پر گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں کجا کہ وہ سکرین پر اکر اپنے علاقے کے مسائل پر گفتگو کریں، بہت دور کی بات ہے تاہم رضیہ محسود نے ان تمام رکاوٹوں اور سختیوں سے بے پرواہ ہو کر اپنا کام شروع کردیا اور اب تک صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
دی خیبرٹائمز سے اس حوالے سے رضیہ محسود نے تفصیلی گفتگو کی جس میں انہوں نے بتایا کہ شدت پسندی کے دوران انہوں نے جب اپنے لوگوں بالخصوص خواتین کی حالت زار دیکھی اور اپریشن راہ نجات کے دوران جن مشکلات کو انہوں نے اپنی انکھوں سے دیکھا اور قریب سے مشاہدہ کیا اور ساتھ ہی بھی ستم ظریفی تھی کہ میڈیا پر ہمارے لوگوں کی کوئی کوریج نہیں تھی تو اس کا واحد حل میں نے یہ تلاش کرلیا کہ خود اسی فیلڈ میں اکر اپنے علاقے کے خواتین کے مسائل کو اجاگر کروں۔
“میں نے جب دیکھا کہ بہت سے خواتین سے اپنے بچے گم ہو چکے ہیں، بہت سارے بچوں کو ڈیرہ اسماعیل خان کے سکولوں میں محض اس لئے داخلے نہیں دئے جا رہے تھے کہ ان کا تعلق وزیرستان سے تھا، بہت سے خواتین نے راستے میں زچگی کے مسائل سہے، بہت سوں کو گھر نہیں مل رہے تھے اور شدید ترین موسم میں بھی خیموں میں زندگی گذارنے پر مجبور تھیں ، تو اس کے بعد میرے پاس کوئی اور اپشن ہی باقی نہیں رہا اس لئے میں نے جرنلزم کو بطور پیشہ اپنایااور شکر ہے کہ اج تک اسی پیشے سے وابستہ ہوں اور کسی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو ئی ہوں ”
رضیہ محسود کے والد خانزادہ خان ریٹائرڈ کالج پرنسپل ہیں اور رضیہ محسود نے اپنی ابتدائی تعلیم جنوبی وزیرستان وانا سے حاصل کی ہے جہاں ان کے والد ڈگری کالج وانا میں بطور پرنسپل تعینات تھے بعد میں انہوں نے اردو میں ڈیرہ اسماعیل خان سے گریجویشن کیا اور بی اے کے دوران جنوبی وزیرستان کے ایک تعلیم یافتہ شخص کامران خان محسود سے ان کی شادی ہوئی۔
رضیہ محسود کا کہنا ہے کہ صحافت میں انے کے دوران انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم والد اور خاوند کی مسلسل حمایت اور تعاون سے ان تمام مشکلا ت پر قابو پا لیا۔
“ابتدا میں ہمارے خاندان کے دیگر لوگوں نے میری صحافت میں انے کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک خاتون ہو کر بھی اپ سکرین پر ائینگی لوگ اپ کی اواز کو سنیں گے اپ کو دیکھے گے جو کہ ہمارے لئے بے عزتی کا باعث ہے تاہم میں نے حوصلہ نہ ہارا اور ان تمام مشکلات کو ایک سائیڈ پر رکھ کر اپنا کام جاری رکھا” رضیہ محسود نے ایک لمبی سانس لیکر اپنی کتھا سنائی۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں لینڈ مائینز پر سٹوری کر رہی تھی جب ادے نامی ایک اسی سالہ خاتون کی میں نے ویڈیو رپورٹ بنائی جس میں ان کے بیٹے بھی دکھائی دء رہے تھے لیکن اسی رپورٹ کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ہمارے لوگوں نے ایک طوفان کھڑا کیا کہ کس طرح ایک خاتون کی ویڈیو بنائی ہے جو کہ قبائلی رسم و رواج کے بالکل خلاف بات ہے۔حالانکہ وہ خاتون اسی سال کی بوڑھی دادی تھی لیکن میرے مخالفین نے اسی واقعے کو بنیاد بنا کر خوب اودھم مچایا۔
ہمیشہ نقاب اوڑھے یہ قبائلی صحافی جنوبی وزیرستان کے مشکل ترین مقامات پر جاتی ہو ئی دیکھی جاسکتی ہے۔جنوبی وزیرستان میں دو ددرجن سے زائد صحافیوں کے ہوتے ہوئے بھی رضیہ محسود کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ پہلی بار انہوں نے بے گھر افراد کی ویڈیو رپورٹ منظرعام پر لائی جو بطور خاندان غاروں میں رہ رہے تھے۔اسی رپورٹ کے ان ائر ہو تے ہی رضیہ محسود کی شہرت کو گویا پر لگ گئے اور بین الااقوامی اداروں جیسے بی بی سی اور وائس اف امریکہ نے رضیہ محسود پر رپورٹیں شائع کیں۔
رضیہ محسود تین بچوں کی ماں ہیں جب میں نے ان سے پوچھا کہ تین تین بچوں کی موجودگی میں صحافت جیسے مشکل کام کو کیسے سرانجام دے رہی ہو؟ اس سوال کے جواب میں رضیہ محسود نے بتایا کہ بچے جب چھوٹے تھے تو وہ بھی ان کے ساتھ ہوتے تھے لیکن جب بچے سکول جانے لگے تو خاندان کے اندر کوئی نہ کوئی ان کا خیال رکھتا ہے تاہم جب سکول کی چھٹیا ں ہو تی ہیں تو بچے بھی ان کے ساتھ فیلڈ میں یا جہاں بھی ہم جاتے ہیں، ساتھ ہوتے ہیں۔بچوں کی موجودگی میں کام کرنا بذات خود ایک بہت بڑا چلینج ہوتا ہے مگر اپ کو ان سب چیزوں کو بیلینس رکھنا پڑتا ہے، ہاں کبھی کھبار جب خاندان والوں میں سے کوئی فارغ نہ ہو تو مسئلہ ہوجاتا ہے کیونکہ بچوں کی تربیت پر کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا۔
رضیہ محسود کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں ایسے دیہات بھی ہیں جہاں خواتین کی تعلیم کا ابھی تک کوئی تصور ہی نہیں۔وہاں اکثر خواتین زچگی کے دوران ہی فوت ہو جاتی ہیں حالانکہ ان علاقوں میں مراکز صحت بھی موجود ہیں لیکن ان میں سٹاف نہیں، اس طرح سکولوں میں بھی خواتین اساتذہ ڈیوٹیاں سر انجام نہیں دے رہی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس علاقے کی خواتین میں شرح تعلیم صفر فیصد ہے۔
“ہمارے ہاں صرف وہی خواتین تعلیم حاصل کرسکتی ہیں جن کے خاندان بندوبستی علاقوں میں رہائش پذیر ہو ورنہ وزیرستان میں اب بھی خواتین کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے علاقوں میں خواتین ڈاکٹرز اور اساتذہ انے سے کتراتی ہیں “رضیہ محسود نے قبائلی خواتین کے نام اپنا پیغام ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ قبائلی خواتین کو تعلیم پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ اب حالات وہی نہیں رہے انہیں بدلتے ہوئے حالات کو سمجھنا ہوگا اور صرف ڈاکٹر یا ٹیچر نہیں بلکہ زندگی کے ہر میدان میں قبائلی خواتین کو اگے انا ہوگا اور خود کو منوانا ہوگا تب کہیں جا کر قبائلی علاقوں میں امن اور ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں