تحریکِ انصاف کی قیادت، صوبائی گورننس اور عمران خان کے فیصلوں کی ناکامی: خیبرپختونخوا کا تحقیقی مطالعہ

ایک تجزیاتی و تنقیدی جائزہ
یہ تحقیق خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومتوں کے تسلسل، عمران خان کے وزرائے اعلیٰ کے انتخاب، اور ان کے فیصلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گورننس کی کمزوریوں کا مطالعہ کرتی ہے۔
مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ کس طرح “تبدیلی” کے نعروں کے باوجود صوبہ بدعنوانی، بیوروکریسی کی بدحالی اور انتظامی تضادات کا شکار رہا۔
مطالعے میں پرویز خٹک، محمود خان، علی امین گنڈا پور اور سہیل افریدی کے ادوار کا تقابلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے، نیز یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ آیا عمران خان کے یہ انتخاب ادارہ جاتی مشاورت پر مبنی تھے یا صرف سیاسی وفاداری کا نتیجہ؟

عمران خان، تحریکِ انصاف، خیبرپختونخوا، گورننس، کرپشن، صحت کارڈ، بی آر ٹی، سیاسی قیادت، سوشل میڈیا۔
2013 میں پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا میں حکومت قائم کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ ایک “شفاف، جواب دہ اور ایماندار” نظامِ حکومت متعارف کرائے گی۔
عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ خیبرپختونخوا “تبدیلی کا ماڈل” بنے گا، جسے پورا پاکستان اپنائے گا۔ مگر ان دعوؤں کے برعکس 12 سال بعد، یہ صوبہ آج انتظامی کمزوری، مالی بے ضابطگی اور سیاسی انتشار کی علامت بن چکا ہے۔
یہ سوال اب ناگزیر ہے:
کیا تحریکِ انصاف واقعی نظام کو درست سمت میں لے جا سکی؟
یا پھر عمران خان کے سیاسی فیصلے ، خصوصاً وزرائے اعلیٰ کی نامزدگی ، خود پارٹی کے زوال کا آغاز بنے؟
عمران خان کے منتخب کردہ وزرائے اعلیٰ پرویز خٹک، محمود خان، علی امین گنڈا پور اور حالیہ سہیل افریدی کس حد تک انتظامی و پالیسی سطح پر کامیاب ہوئے؟
کیا عمران خان کے انتخاب ادارہ جاتی مشاورت پر نہیں، بلکہ شخصی اعتماد پر مبنی تھے؟
کرپشن، منصوبہ جاتی ناکامیوں اور بیوروکریسی کے بحران کے تناظر میں پی ٹی آئی کے “شفافیت” کے بیانیے کی کیا حیثیت رہ گئی؟
سوشل میڈیا نے پارٹی کے اندرونی تضادات اور عوامی تاثر کو کس حد تک متاثر کیا؟
کیا پی ٹی آئی قیادت اب بھی اصلاح کی صلاحیت رکھتی ہے یا جماعت شخصیت پرستی کے بوجھ تلے دب چکی ہے؟
پرویز خٹک وہ پہلے وزیراعلیٰ تھے جنہیں عمران خان نے “اصلاحات کے لیے موزوں” قرار دیا۔
ان کے دور میں پولیس ریفارمز، تعلیم میں شفاف بھرتیاں، اور بلدیاتی نظام کی بنیاد رکھی گئی، تاہم جلد ہی فنڈز کی تقسیم اور پارٹی کے اندر اختلافات نے حکومت کو کمزور کیا۔ بعد میں یہی پرویز خٹک پارٹی قیادت سے الگ ہو کر ایک نئی جماعت بنانے پر مجبور ہوئے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے: اگر انتخاب درست تھا تو بغاوت کیوں ہوئی؟
محمود خان کو “نرم مزاج اور فرمانبردار” سمجھ کر چنا گیا، مگر ان کے عہد میں صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کی رفتار سست رہی، جبکہ بی آر ٹی منصوبہ بدعنوانی اور بدانتظامی کی علامت بن گیا۔
آڈیٹر جنرل کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق، اس منصوبے میں اربوں روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔
یہ وہی منصوبہ تھا جسے “شفاف ترقی” کا ماڈل کہا گیا تھا۔
پھر علی امین گنڈا پور آئے، ایک جذباتی، نعرہ زن اور عوامی سیاستدان ؛ مگر وہ بھی انتظامی چیلنجز کے سامنے بے بس دکھائی دیے۔
کچھ ہی عرصے میں انہیں ہٹا کر سہیل افریدی کو وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔
اس پر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ “انہیں کیوں ہٹایا گیا؟” اور “سہیل افریدی کون ہیں؟”
مگر خان صاحب کے حامیوں نے کہا: “یہ چیئرمین کا فیصلہ ہے، وہ غلط نہیں ہو سکتے!”
یہ جملہ بذاتِ خود پی ٹی آئی کی سیاست کا خلاصہ ہے — یعنی ایک شخصیت کو نبیاتی درجہ دینا اور ادارہ جاتی مشاورت کو ثانوی سمجھنا۔
بی آر ٹی کو تحریکِ انصاف کی ترقیاتی شناخت کے طور پر پیش کیا گیا، مگر 2018 سے 2022 تک کی آڈٹ رپورٹس نے اس منصوبے کو “مالی بدانتظامی کی مثال” قرار دیا۔
پروجیکٹ میں ٹھیکوں کی تقسیم، غیر معیاری سامان اور سیاسی مداخلت کے الزامات عام رہے۔
اگر یہی شفافیت کا نمونہ ہے، تو بدعنوانی کی تعریف از سرِ نو کرنی ہوگی۔
صحت کارڈ کو عوامی فلاح کا سنگِ میل کہا گیا، مگر جلد ہی انشورنس کمپنیوں، اسپتالوں اور حکومتی اہلکاروں کے درمیان مالیاتی بے ضابطگیوں کے شواہد سامنے آئے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کی 2023 کی کارروائی میں اس اسکیم کے مالیاتی ماڈل پر سوالات اٹھائے گئے۔
ایک رکنِ اسمبلی کے مطابق “یہ کارڈ عوام سے زیادہ پرائیویٹ اسپتال مالکان کے لیے منافع کا ذریعہ بن گیا ہے”۔
پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کو اپنی سب سے بڑی طاقت بنایا؛ ہر خبر، ہر تنقید، ہر سوال کو “سازش” قرار دیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد یہ تاثر پھیلایا گیا کہ “جب خان باہر آئیں گے، ملک بدل جائے گا”۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی کے لیے ادارے بنتے ہیں، اور پی ٹی آئی نے ادارے مضبوط کرنے کے بجائے شخصیات کے گرد نظام گھما دیا۔
ورکروں کا یہ ایمان کہ “کوئی وزیر اعلیٰ خان کو جیل سے نکال سکتا ہے”،
یہ رویہ سیاسی حقیقت پسندی کے زوال کی علامت ہے —
سیاست جذبات سے نہیں، ادارہ جاتی عقل و عمل سے چلتی ہے۔
پی ٹی آئی کے تمام ادوار میں ایک چیز مشترک رہی:
پارٹی کے اندر احتساب کا نظام محض نعرہ رہا۔
پرویز خٹک اور محمود خان کے ادوار میں کرپشن کے واضح شواہد کے باوجود کسی اعلیٰ سطحی انکوائری کو عملی شکل نہ دی گئی — یہی تضاد تحریکِ انصاف کے بیانیے کی کمزوری بن گیا۔
عمران خان کے وزرائے اعلیٰ کے انتخاب ادارہ جاتی کارکردگی کے بجائے شخصی اعتماد پر مبنی تھے، خیبرپختونخوا میں ترقیاتی منصوبے، خصوصاً بی آر ٹی اور صحت کارڈ، شفافیت کے بجائے مالی بے ضابطگیوں کا مرکز بنے؛
سوشل میڈیا کی بیانیہ سازی نے حقیقی گورننس کے مباحثے کو کمزور کیا، اور پی ٹی آئی کے اندر احتساب و اصلاح کا مؤثر نظام باقی نہ رہا، عمران خان کی قیادت اب ایک سیاسی بیانیے سے زیادہ شخصی عقیدت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

تحقیق کے مطابق، عمران خان کے سیاسی فیصلے بار بار ناکامی کا باعث بنے ، چاہے وہ پرویز خٹک ہوں، محمود خان یا علی امین گنڈا پور،،، یہ غلطیاں کسی سازش کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک ایسے لیڈر کی سیاسی بصیرت کی کمزوری ہیں جو وفاداری کو صلاحیت پر ترجیح دیتا رہا۔
درجہ ذیل سوالات کا اٹھنا اور اُن پر عوام کی تشفی ضروری ہے،
کم از کم پرجوش پی ٹی آئی ورکروں کے عقیدے کی پاسداری تو ہونی چاہیے، جو آنکھیں بند کر کے عمران خان کے نام پر ووٹ اور سپورٹ دیتے رہے، اور دنیا کے سامنے یہ مانتے ہیں کہ “عمران خان ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے۔”

کیا تحریکِ انصاف اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے گی؟
کیا عمران خان ادارو‍ں کی مضبوطی پر یقین لائیں گے؟
یا اگلا وزیر اعلیٰ بھی اسی تسلسل میں “ایک اور غلط انتخاب” ثابت ہوگا؟
اگر تحریکِ انصاف نے اپنی سیاسی ساخت ادارہ جاتی بنیادوں پر استوار نہ کی۔۔۔ تو خیبرپختونخوا کا مستقبل پھر ایک سوالیہ نشان ہی رہے گا:
“کیا واقعی تبدیلی آ گئی، یا صرف چہرے بدلے گئے”

اپنا تبصرہ بھیجیں