مسکین صورت اور مسکین سیرت ڈاکٹر ولی اللہ شہید ۔۔۔ احسان داوڑ

اج صبح انکھ کھولی تو حسب معمول سوشل میڈیا چیک کیا تو کچھ دیر کیلئے انکھیں ملتا رہا کہ شاید میں نیند میں ہوں یا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں لیکن پھر یقین آیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر ولی اللہ اب ہم میں نہیں رہے ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب وہ کیڈٹ کالج رزمک میں ساتویں کلاس کے سٹوڈنٹ تھے ۔ میرعلی بازار میں خریداری کر رہے تھے اور رزمک جانے کی تیاری میں تھے۔ میں نے اپنی بساط کے مطابق انہیں کچھ پیسے دئے کیونکہ وہ میرے چھوٹے بھائی جیسے تھے ۔ ان کے بڑے بھائی سرجن ڈاکٹر امین اللہ کے ساتھ میرے تعلقات 1982 سے اب تک بھائیوں سے بھی بڑھکر ہیں اس لئے ان سے چھوٹے ان کے تمام بھائی میرے بھی بھائی ہی تھے ۔ ڈاکٹر ولی اللہ میڈیکل میں گئے تو ہوبہو ایک سکول گوئنگ بچے جیسے تھے ۔ سیدھے سادھے اور معصوم صورت ۔ ڈاکٹر بنے ، ایف سی پی ایس کیا ، حیات اباد میڈیکل کمپلیکس میں رجسٹرار تعینات ہوئے ، پھر گجوخان میڈیکل کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر اف پتھالوجی لگے اس کے بعد بنوں میڈیکل کالج میں اسی ہی پوسٹ پر تعینات ہوئے ۔ لیکن اس بندہ خدا میں غرور یا تکبر نام کی کوئی شے میں نے اج تک نہیں دیکھی ۔ حال ہی میں انہوں نے اپنے لئے اپنے بائی گاؤں ہرمز میں نیا مکان تعمیر کیا اور کچھ قرضے لیکر میرعلی میں ایک جدید لیبارٹری قائم کی جس کے بارے میں اس کا ٓکہنا تھا کہ ہمارے لوگ ٹیسٹوں کیلئے پشاور جاتے ہیں لیکن اب انہیں پشاور جانے کی ضرورت نہیں ۔ مسکینی اور عاجزی کا یہ حال تھا کہ ایک ماہ پہلے جب میں میرعلی سے پشاور ارہا تھا تو انہوں نے بڑی مسکین سی صورت بنا کر کہا ،
” احسان بھائی اگر اپکو کوئی مسئلہ نہ ہو تو میں بھی اپکے ساتھ جاؤنگا”
میں نے ان کی حالت دیکھ کر میری ہسنی چھوٹ گئی اور کہا کہ ولی یار اپکے ساتھ ہونے سے مجھے تکلیف کے بجائے خوشی ہوگی ۔
وہ ایسے ہی تھے ۔ کھبی کسی کے ساتھ اپنا دُکھ درد شریک نہیں کیا ۔ اپنی ہی دنیا میں رہنے والے ایک

مسکین اور انتہائی حد تک شریف انسان تھے ۔ میں انہیں کبھی کبھار چھڑتا تھا کہ یار اپ جوان ہو، اچھی پوسٹ پر ہو ، کوئی گرل فرینڈ وغیرہ نہیں رکھی ہے ، تو وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کرتے اور منہ چھپاتے کیونکہ ہمارا رشتہ چھوٹے اور بڑے بھائیوں جیسا تھا ۔ ان کے نزدیک منفی سوچوں اور منفی اعمال کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ پوری زندگی بلکہ جوانی انہوں نے حقیقت میں ایک ولی اللہ کی طرح گذاری ۔ یہ سطور لکھتے ہوئے بھی مجھے یقین نہیں ارہا کہ ولی اللہ اب ہم میں نہیں رہے لیکن جو ،کہتے ہیں
موت سے کس کو رستگاری ہے
اج تم کل ہماری باری ہے
ڈاکٹر ولی اللہ کی شہادت کا بوجھ بہت بھاری ہے ۔ جس نے بھی یہ اندھی گولیاں چلائی ہیں ان کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ ان کی درندگی نے کس فقیر منش کو ہم سے جدا کردیا ۔ اج کے اس خودغرض اور بے رحم دنیا میں ولی اللہ کی طرح کے خاکسار اور مسکین لوگ ناپید ہو چکے ہیں شاید انہیں بھی جانے کی جلدی اس لئے تھی کہ اب یہ دنیا ان کے جیسے لوگوں کے رہنے کے قابل نہیں رہی ۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اونچی تختوں اور مسہریوں پر بٹھا دیں ۔ امین

اپنا تبصرہ بھیجیں