تحریر : رفعت انجم
خیبرپختونخوا میں کورونا وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد سو تک پہنچنے میں پورا ایک مہینہ لگا تو یہاں کے باسی سمجھنے لگے کہ یا تو شاید ہم آب حیات پی چکے ہیں یا ملاوٹ شدہ اشیا کھا کھا ہماری قوت مدافعت اس قدر مضبوط ہوچکی کہ کورونا تو کیادنیا کا کوئی وائرس ہمیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔یہی غلط فہمی تھی کہ جو تعداد ایک ماہ میں صرف ایک سو تھی اگلے ماہ میں پندرہ سو تک ہو گئی اور 85 افراد جان سے چلے گئے ہیں۔
محکمہ صحت خیبرپختونخوا کے مطابق اب تک جان بحق ہونے والوں میں 78 فیصد مردجبکہ 28 فیصد خواتین ہیں۔ 40سال کے 4 اور 50 سال کی عمر کے 6 افراد اب تک موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اعداد و شمار میں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ 50 سے 59 سال کی عمر کے 20 جبکہ 60 سے 69 سال کے 28 افراد جاں بحق ہوئےکورونا سے 70 سال سے زائد عمرکے جاں بحق افراد کی تعداد 25 ہے۔
مگر کیا کریں یہاں کے لوگوں کا جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی آنکھیں اور کان بند کئے ہوئے ہیں ہر کوئی اپنی اپنی راگ الاپ رہا ہے۔ کوئی کورونا کو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے جوڑ رہا ہے تو کوئی اس کو آئی ایم ایف سے پیسے بٹورنے کی سازش سمجھ رہا ہے ۔کوئی کہتا ہے یہ مساجد کو بند کرنے کی سازش ہے۔ لوگوں میں فاصلہ رکھ کر نفرتیں بڑھا رہے ہیں۔
عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق کورونا وائرس کی تین طریقوں سے روک تھام کی جاسکتی ہے۔ایک یہ کہ فوری طور پر ویکسین بنا کر علاج کیا جائے ۔دوسرا وار آف سروائیور یعنی قوت مدافعت کے ذریعے اس وائرس کا مقابلہ کیا جائے اور تیسرا حٖفاظتی اقدامات اُ ٹھا کر اس وائرس کے نقصانات کم سے کم کئے جاسکیں۔ اب اس تناظر میں اگر دنیا کو دیکھیں تو چین نے شروع سے ہی تیسرے طریقے کو اپنایا جہاں مرنے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے نہ بڑھ سکی۔ تاہم یورپ اور امریکہ میں بھی اسے پہلے پاکستان کی طرح مذاق سمجھا گیا۔ پھر جب حالات سنگین ہوئے تو وار آف سروائیول کی طرف گئے لیکن بربادی دیکھ کر مجبورا انہیں بھی تیسرے طریقے کی طرف جانا پڑا جو اس وقت سب سے بہترین طریقہ مانا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وائرس کا پھیلاو اس قدر خطرناک ہے کہ کورونا کا متاثرہ ایک شخص کو اگر دوسروں سےالگ نہ کیا جائے تو وہ 59 ہزار دیگر انسانوں میں کورونا وائرس منتقل کرنے کا باعث بن سکتا ہے ۔جس کی مثال ساوتھ کوریا میں مریض نمبر 31کی دی جاتی ہے ۔جو کورونا وائرس ہونے کے باوجود چرچ گئی ۔دوست کے ساتھ کھانا کھایا ۔اور اس کے بعد ساوتھ کوریا میں مریضوں کی تعداد 30 سے بڑھ کر ہزاروں تک پہنچ گئی۔
اب ہمارے خطے کی اگر بات کریں تو پندرہ ،بیس سال پہلے جب اس خطے میں دہشت گردی کا راج تھا تو کسی وقت تک تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ساتھ کھڑا ہوا شخص خود کش بمبار ہے یا نہیں یہی حالت آج کے کورونا کے مریض کی ہے جس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے ،،ایک خود کش دھماکہ ہوتا تو 20 ،25 یا پھر 100دو سو انسان اس میں جاں بحق ہو جاتے مگراس میں یہ ضرور معلوم تھا کہ کچھ علاقے یا جگہیں ٹارگٹڈ ہیں ۔تاہم کورونا وائرس ان تمام قدغنوں سے مستثنٰی ہے یہ کب کہاں اور کس کو اپنی لپیٹ میں لے یہ معلوم نہیں اورنہ سو ڈیڑھ سو انسانوں کے شکار پر اس کا گزارہ ہوگا۔ یہاں لوگ بھوک سے مرنے سے بچنے کے لیے گھروں میں نہ بیٹھنے کی وجہ بتاتے ہیں ۔لیکن یاد رکھیں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد شاید کم ہو۔کورونا سے اموات بڑھیں تو جگہیں کم پڑسکتی ہیں۔
Load/Hide Comments