اللہ جانے اللہ نے کس گناہ کی پاداش میں ہم پر ایک ایسی وبا نازل کی ہے جس نے تین سے چار ماہ کے دوران دنیا بھر میں صحت کے نظام کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں، کیسز اور اموات کی روز بروز بڑھتی تعداد نے ایک ایسے عجیب سے خوف میں مبتلا کر چھوڑا ہے کہ آج انسان دوسرے انسان سے ملتے ہوئے بھی گھبرانے لگا ہے، کہاں پاکستانی جن کے نزدیک نزلہ زکام بخار کی کوئی اوقات نہیں ہوا کرتی تھی اور آج وہی نزلہ بخار ہے جس نے لوگوں کو کینسر، شوگر اور ایڈز جیسے خطرناک امراض فراموش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستان پر گزرے ہر طرح کے حالات کو عام لوگوں کے تک پہنچانے میں میڈیا کا بلاشبہ ایک اہم ترین کردار رہا ہے گو کہ اس کردار کی ادائیگی کی بسا اوقات خاصی بھاری بھرکم قیمت بھی میڈیا ورکرز کو ادا کرنا پڑی ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا 2005 کا ہولناک زلزلہ، 2010 کا خوفناک سیلاب ہو یا دیگر عام و خاص حالات و واقعات، فیلڈ میں کام کرنے صحافی نے کبھی اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتی لیکن ان تمام حالات کے باوجود آج میڈیا انڈسٹری کے نام نہاد بحران کے باعث سب سے زیادہ متاثر بھی یہی فیلڈ میں کام کرنے والے میڈیا ورکرز ہی ہیں، مالکان ہوں، ان کے ٹاوٹس ہوں، یا فیلڈ میں خوار ہو کر خبریں تلاش کرنے والے صحافیوں کی خبروں پر تبصرے اور ٹاک شو کرنے والے اینکرز، سب مزے میں ہیں لیکن خبر لانے والے صحافی آج بھی ہمیشہ کی طرح اپنے مستقبل کے لئے پریشان حال ہی ہیں۔ کورونا نے جہاں پوری دنیا اور پاکستان کو متاثر کیا ہے وہیں پشاور کی صحافی برادری بھی اس کی زد میں آئے بغیر نہیں رہ سکی اور ایسا ہوتا بھی کیونکر ڈاکٹر اور پولیس کے علاوہ ایک صحافی ہی تو تھے جو کورونا کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑ رہے تھے۔ ایک نجی ٹی وی کے کیمرہ مین شہزاد کاظمی اس موذی وائرس کا نشانہ بننے والے اولین ویڈیو جرنلسٹ تھے جس کے بعد ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر سینئر صحافی آصف شہزاد کورونا کا نشانہ بنے، ان سے یہ وائرس ان کے بھائی اور ایک اور نجی ٹی وی کے لئے کام کرنے والے رپورٹر واجد شہزاد اور پھر ان کے بڑے بھائی، آور چھوٹے بھائی سمیت ایک ہی گھر کے 17 افراد میں منتقل ہوا۔ ساتھ ہی آصف شہزاد کے آفس کے کچھ دیگر ساتھیوں کیمرہ مین سید عامر علی شاہ، معین علی، اسائنمنٹ ایڈیٹر جہانزیب خان، فیصل اقبال بھی متاثر ہوئے۔ ملک عادل زادہ، عمران علی، راحم یوسفزئی اور ابھی حال ہی میں عماد وحید بھی متاثر ہوئے پریس کلب کی سطح پر جو ہم سے ممکن تھا ہم نے کیا اور مزید بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن ایک سب سے اہم اور ضروری کام اس وائرس کا شکار ہونے والے ساتھیوں کو حوصلہ دینا تھا اس مقصد کے لئے ہمارے دیرینہ ساتھی عمران ایاز نے ایک گروپ بنایا جس میں کورونا سے متاثرہ تمام ساتھیوں کو ایڈ کیا گیا اور اس گروپ کا واحد مقصد اپنے ان دوستوں کو اس بیماری سے لڑنے کی ہمت دینا تھا۔ اسے آسان الفاظ میں “ٹاک تھراپی” کہا جاتا ہے جسے ہمارے ایک پیارے دوست قاسم سرویا نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ “آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا سے تشریف لائے، روایات کے مطابق گھبرائے ہوئے تھے. آتے ہی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا مجھے چادر اوڑھا دو. کچھ طبیعت سنھبلی تو پہلی وحی کا واقعہ سنایا… حضرت خدیجہ نے فرمایا۔ ”خدا کی قسم!ا اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم توصلہ رحمی کرتے ہیں‘ ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، دوسروں کو مال واخلاق سے نوازتے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق بجانب امور میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں” میرے نزدیک تاریخ انسانی میں یہ سب سے معتبر، مطہر خوبصورت اور ارفع ” ٹاک تھراپی” ہے. جو ارفع ترین خاتون نے امام الانبیاء کیلئے کی. اب اس بات پر غور کریں کہ نفسیاتی یا ذہنی دباؤ اللہ کے برگزیدہ ترین اور چنیدہ بندوں کو بھی ہو سکتا ہے. اور اسکا فوری اور بہترین علاج یہی محبت کے بول یا ‘ٹاک تھراپی’ ہے. اور یہ علاج اس قدر اہم اور کارگر ہے کہ آقا کریم تاعمر ام المومنین حضرت خدیجہ کی ان تسلیوں کا ذکر محبت سے فرماتے رہے. ہمیں خوب ادراک ہے کہ ہم ایک ہنگامی دور سے گذر رہے ہیں. بہت سے احباب کرونا اور اسکے خوف کی وجہ سے اور بہت سے اس کی وجہ سے پیداشدہ معاشی مسائل کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ میں ہیں. اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں. اپنے گھر، کنبے یا حلقہ احباب میں جو شخص اس کیفیت میں ملے ام المومنین کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس کی ٹاک تھراپی کریں. اسے کچھ قوت دیں. اس کی خوبیاں اس کی صلاحیتیں یاد کروائیں. اللہ کریم کی عطاء کردہ نعمتوں کی تحدیث کریں. اس باور کروائیں کہ یہ وقتی مسائل ہیں. اللہ کریم کے فضل وکرم سے سب ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا. یقیناً بہت سے لوگ ہماری ذرا سی توجہ اور ذرا سی محنت سے اس وقتی مایوسی سے نکل کر پھر سے نارمل انداز سے سوچنا شروع کردیں گے. مغرب میں تو اسوقت یہ دھندا عروج پر ہے ہزاروں آنلائن سائیکو تھراپسٹ اگ آئے ہیں. اور مایوس لوگوں سے پیسے بٹور کر انکی ذہنی کیفیات بہتر کرنے کی سعی میں لگے ہیں. مگر ہم گئے گذرے ہی سہی آقا کریم کے امتی ہیں. اللہ کا حکم بھی ہے کہ جو تمہیں عطا کیا گیا ہے اس میں سے خرچ کرو. تو اس وقت جن سکوں کی تقسیم کی حاجت ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے. سو اللہ کریم کی عطا کردہ اپنی ذہنی آسودگی اور اپنے خوبصورت وقت میں سے کچھ ضرورت مندوں میں تقسیم کیجیے. اللہ آپ سے راضی ہوگا.” اور الحمدللہ اس گروپ نے اپنے قیام کا مقصد احسن طریقے سے حاصل کیا۔ ساتھ ہی احتشام خان، تیمور خان، عابد خان، عزیز بونیری اور دیگر ساتھیوں کی مدد سے کورونا متاثرین کے لئے ٹیسٹوں کا انتظام اور پھر بروقت ان کے رزلٹس کے حصول کے لئے کوششیں کی گئیں, ایسے میں عمران ایاز کے ایک میسج کا ذکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے فیسبک پر اس کی وال پر روانہ ایک میسج دکھائی دیتا تھا جس میں اس روز کورونا کو شکست دینے والے افراد کی تعداد درج ہوا کرتی تھی۔ اللہ جانتا ہے کہ جتنی بے صبری سے میں عمران کے اس میسج کا منتظر رہتا تھا کبھی کسی چیز کے لئے ایسا انتظار نہیں کیا اور یہ۔بھی حقیقت ہے کہ یہ میسج اندر ہی اندر ایک نیا جوش اور جذبہ بیدار کرتا تھا اور اللہ کے فضل و کرم سے اس گروپ میں موجود تمام ساتھی کورونا کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔ سب سے بہترین جنگ آصف شہزاد نے لڑی جس نے ہمت سے کام لیتے ہوئے نہ صرف خود اس موذی وائرس کو شکست فاش دی بلکہ اپنے گھر کے تمام افراد کو بھی اس کے چنگل سے باہر نکالا۔ رمضان کے آخری ہفتے میں ہمارے ایک اور دیرینہ ساتھی فخرالدین سید اس موذی وائرس میں مبتلا ہوئے اور پھر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ فخرالدین ایک بہت ہی ملنسار، خوش گفتار و ہنس مکھ، ہر کسی کے کام آنے والا بے ضرر سا انسان تھا ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی جو ہمیشہ اس کے چہرے پر سجی رہتی تھی، ایک ایسا انسان، ایسا صحافی جسے شاید ہی کسی نے کبھی کسی کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرتے دیکھا ہو، بردباری اور تحمل گویا کوٹ کوٹ کر اس کے اندر بھرا ہوا تھا۔ ایک پروفیشنل صحافی کی طرح اس نے کبھی کسی کو خبر دینے سے انکار نہیں کیا تھا۔ فخرالدین سے تعلق کب کا ہے یہ تو اب یاد ہی نہیں، بس تعلق ایسا تھا جو نہایت محبت اور احترام کے بندھن میں گندھا ہوا اور یہ میرا یقین ہے کہ اس کے ساتھ ہر کسی کا تعلق اسی نوعیت کا رہا ہوگا۔ فیلڈ میں ہر کسی کے ساتھ محبت، احترام اور شفقت سے پیش آنے والے فخرالدین کے ساتھ بے شمار ایونٹس ایک ساتھ کور کرنے کا موقع ملا، میں نے اس شخص کو کبھی خبر چھپاتے نہیں دیکھا وہ اپنی ہر خبر ساتھیوں کے ساتھ شیئر کرتا تھا۔ اس کے یہ الفاظ میں کبھی نہیں بھولتا کہ “جو خبر یا ٹیکرز میرے پاس چل گئے ہیں وہ اب میرے کس کام کے، خبر دو گے تو ہی خبر ملے گی۔” اور اس بات یا نصیحت کو میں نے بھی پلے سے باندھ لیا اور اس کے بعد کبھی کسی کو خبر سے انکار نہیں کیا۔ ہم صحافی بھی بڑے عجیب ہیں۔ پریس کلب کے الیکشن اور جنرل باڈی اجلاس کے علاوہ شاید ہی کسی خوشی کے موقع پر اتنی بڑی تعداد میں اکٹھے ہوتے ہوں، بس کسی ساتھی کے اہل خانہ میں سے کسی کی میت پر یا پھر کسی ساتھی کے جنازے پر۔۔۔ ہم نے خوشیوں پر ملنا چھوڑا تو خوشیوں نے بھی گویا اجتماعی طور پر ہمارے پاس انا ترک کر دیا۔ فخرالدین کے جنازے پر میں نے کئی ساتھیوں کی آنکھیں سرخ دیکھیں۔ آنسو آنکھ سے باہر نکلنے کی بجائے اندر گریں تو ایسے ہی آنکھیں لال کر دیا کرتے ہیں۔ اللہ ہم پر سے یہ کورونا کا عذاب جلد ہٹائے جس نے ہمیں اپنے بھائی جیسے دوست کے جنازے میں کسی سے کھل کر ملنے سے بھی محروم کر دیا ہے۔ رواں سال یہ تیسرا بڑا سانحہ ہے جو پریس کلب کے ساتھیوں کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ پہلے سینئر صحافی پرویز خاکی صاحب ان کے بعد سنیئر فوٹو جرنلسٹ گلشن عزیز صاحب اور پھر فخرالدین سید۔ کورونا سے فرنٹ لائن پر لڑنے والے ان صحافیوں کے لئے حکومتی اقدامات حسب معمول خالی خالی دعوؤں اور وعدوں تک ہی محدود ہیں اور وہ بھی ایسے جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ پولیس اور ڈاکٹرز کے علاوہ صرف صحافی ہی ہیں جو اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے میدان میں موجود ہیں لیکن افسوس کہ پولیس اور ڈاکٹرز کے لئے جن مراعات کا اعلان کیا گیا صحافیوں کے لئے اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ حکومت سے اس حوالے سے ایک بار پھر مطالبہ ہے کہ صحافیوں کو درپیش مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ان کے حل کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں، کورونا سے متاثرہ صحافیوں کو بھی وہی پیکج دیا جائے جو پولیس اور ڈاکٹرز کے لئے رکھا گیا ہے۔ ہمارا ساتھی فخر صحافت اور شہید صحافت فخرالدین تو واپس نہیں آ سکتا لیکن کم سے کم اس کے اہل خانہ کے لئے تو ایسے اقدامات حکومتی سطح پر کئے جانے چاہیئں تاکہ وہ مستقبل کے خدشات سے بے فکر پر سکون زندگی بسر کر سکیں۔
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments