اپوزیشن جماعتوں کے جلسے اور حکمران جماعت کا خوف ؟؟ ناصر داوڑ

ہمارے سینیئر صحافی سلیم صافی کا ٹویٹ دیکھا اس نے لکھا تھا، کہ 16 اکتوبر کے گوجرانوالہ جلسے میں اس لئے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو مدعو نہیں کیا گیا تھا، کیونکہ وہ کردار خود سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے آداکرنا تھا، اور کردیا، وزیراعظم عمران خان نے جس طرح جواب دیا، اب لگ رہاہے، کہ آج 18 اکتوبر کے جلسے میں عمران خان کو جواب دینے کیلئے اب میاں نواز شریف نے منظور پشتین سے علی وزیر بن کر جواب دے سکتا ہے، اس سے آگے تو کسی کے سمجھ میں نہیں آرہا، کہ عمران خان کراچی جلسے کا جواب کس طرح اور کن کن الفاظ کا چناؤ کرکے دینگے؟
مبصرین کہتے ہیں، کہ اب پاکستان میں 2 ہی مخالف طاقتیں تشکیل ہوئیں، ایک اسلام آباد اور راولپنڈی کا اتحاد، جبکہ دوسری PDM پاکستان ڈیموکریٹک مؤومنٹ، جو بظاہر سیول سپریمیسی کا جنگ لڑ رہی ہے۔

کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی میزبانی کا کردار آدا کررہی ہے، جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز پہلی بار کراچی میں بڑے جلسے سے خطاب کریگی،
زرائع کے مطابق کنونش سنٹر اسلام آباد میں ٹائیگر فورس کے تقریب سے وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے بعد کراچی جلسے میں مولانا فضل الرحمان بھی اپنی پگڑی کے نیچے منظور پشتین کیپ پہننے کا ارادہ رکھتے ہیں، توقع کی جارہی ہے کہ کراچی میں مولانا صاحب بھی ( سپینے سپینے ) یعنی عمران خان کی باتوں کا کھرا جواب دینے کیلئے کمر کس ہے۔
گوجرانوالہ جلسے کے دن حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے دونوں ایوانوں، ایوان بالا اور ایوان زیرین کے اجلاس طلب کرلئے تھے، تاکہ اپوزیشن سے ہاؤس پاک میں وزیراعظم عمران خان آئیں اور وہ دل کُھل کر ایوان سے خطاب کرسکے؟؟ تاہم اپوزیشن کی تعداد کم ہونے کے باوجود بھی چند موجود اپوزیشن آراکین اسمبلی نے وہ حال کردیا کہ عمران خان پیر نہ جماسکے اور بڑے بے ابرو ہوکر نکل پڑے۔
اسی روز اسمبلی میں حیران کن بات یہ بھی ہے کہ خود وزیراعظم کے پارٹی آراکین بھی دفاعی پوزیش میں نظر نہیں آرہے تھے۔
وزیراعظم کے چلے جانے کے بعد اسپیکر اسمبلی بھی مذید اجلاس جاری نہ رکھ سکے، جس کا اپوزیشن کو فائدہ یہ ہوا کے اسمبلی میں موجود اپوزیشن آراکین بھی گوجرانوالہ کے جلسے میں بروقت پہنچ گئے۔

گوجرانوالہ کے جلسے میں بلاول بھٹو زرداری کی کافی عزت افزائی دیکھنے کو ملی، مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور حکمران جماعت کے نشانے پر مریم نواز نے اختصار کے ساتھ انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجابی سے اپنی تقریر کا آغاز کردیا، مریم نواز کی گوجرانوالہ کے جلسے کا خطاب یقیناً توقعات سے بڑھکر سنجیدہ رہا، اور ایک سنجیدہ سیاست دان سے یہی توقع کی جاسکتی ہے، محمود خان اچکزئی کی باتوں کو بھی جلسہ کے شراکا نے بڑی سنجیدگی سے سنیں ، اویس  دُرانی نے بھی شائد جلسے میں وہ باتیں کیں، جس سے قبل وہ نہیں کرپارہے تھے، مولانا فضل الرحمان نے تو حد کرکے ایک خطرناک پیشنگوئی یہ بھی کی، کہ حکمران جماعت نے چوکوں پر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا، اور شائد موجودہ حکمران دسمبر کا مہینہ بھی حکمرانی میں ہوتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔
اس کے جواب میں وزیراعظم جناب عمران خان نے کنونشن سنٹر میں جو تقریر کی ہے، اس کے بعد شائد اسپیکر قومی اسمبلی کسی بھی جیل میں موجود گرفتار آراکین کا پراڈکشن آرڈر جاری کرسکے؟
اب اگر دیکھا جائے تو ملک میں پہلی بار سیاسی جنگ، ایک دوسروں کیلئے الفاظ کا ستعمال اور سیاسی کشیدگی اتنی کبھی بھی دیکھنے کو نہیں ملی، جتنا کہ اب ؟؟؟
گوجرانوالہ جلسے یا اس سے قبل جلسے کی تیاری کے دوران ایک دوسرے کیلئے تلخ اور سخت جملوں کا استعمال ہوگیا۔
بات یہاں ختم نہیں ہورہی ہے، بلکہ بات تو اب شروع ہوگیا ہے، اپوزیش کے اتحاد PDM کے جلسے ابھی رہتی ہے، آج کراچی میں اس کے بعد ملک بھر کے تمام بڑے شہروں میں ان کے جلسوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے، دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہورہاہے؟؟
جیسے بھی ہو ایک بات تو سچ ہے، کہ موجودہ حکمرانوں ہی کی پالیسیوں سے اپوزیشن کے جلسے مظبوط اور کامیاب ہونے جارہے ہیں، ملک میں بے روزگاری ، بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ ، بڑھتی ہوئی مہنگائی، ڈالر اور سونے کا اُڑان دیکھ کر اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہورہا ہے۔
ملک میں موجود معاشی صورتحال اور انتخابات سے عمران خان کے دعوے دیکھ کر امکان یہ ہے کہ اپوزیشن کے جلسے میں عوام ذیادہ سے ذیادہ شریک ہونگے، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے جلسے کیلئے   19  اکتوبر ملاکنڈ خیبرپختونخوا کا جلسہ سب سے ذیادہ اہمیت کا حامل ہوگا، کیونکہ یہاں خیبرپختونخوا میں گذشتہ 8 سالوں سے تحریک انصاف ہی کی حکمرانی ہے، جہاں پر کافی پیسہ بھی خرچ کی گئی ہے، اور عوام کے ساتھ وعدے بھی ذیادہ ہوچکے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے، کہ حکمران جماعت خرچ کیا جانے والا پیسہ ان کے کام آئیگا، یا جوجو وعدے کئے ہیں اسے پورانہ کرنے کی سزا؟؟؟؟ 

اپنا تبصرہ بھیجیں