تحریر: شیراز پراچہ
اج میں اپ کو ایک ایسے دیس کی کہانی سناتا ھوں جہاں بہت بڑی تعداد میں سادہ اور مخلص پتلیاں رھا کرتی تھیں- یہ پیار و محبت کرنے والی پتلیاں تھیں مگر انکی سوچ اور فکر پر دوسروں کا کنٹرول تھا- انکے اعمال کچھ شاطر مداریوں کے زیر اثر تھے جو ان پتلیوں کو لڑواتے تھے- یہ پتلیاں ایسے چرب زبان سیلز مینوں کے ہتھے چڑھی ھوئی تھیں جو انکی عقیدت اور محبت کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کیا کرتے تھے-
کچھ سیلز مین مذھب کے نام پر رنگ بازی بھی کرتے تھے- اپنے ڈرامائی بیانات کے ذریعے یہ پتلیوں کو ایک رنگین دنیا میں لے جاتے یہاں تک کہ وہ نامناسب قصے بھی بیان کرتے مگر ایسی کہانیاں سن کرعقیدت کی ماری پتلیاں آگے سے سر د ھنتیں کیونکہ قصے بیان کرنے والوں نے مذھبی لبادہ اوڑھ رکھا ھواتا-
مداریوں کی دال روٹی خوف پھیلانے سے چلتی تھی- وہ پتلیوں کو خوف و ہراس میں مبتلاء رکھتے تھے اور لوگوں کو خدا سے صرف ڈراتے تھے لیکن یہ نہیں بتانے تھے کہ خدا پیارومحبت دینے اور انصاف کرنے والا بھی ھے- وہ رحمان بھی ھے اور رحیم و کریم بھی- مداری پتلیوں کو احساس گناہ میں مبتلا رکھتے, انہیں رونے, گڑ گڑانے کا کہتے اور ان سے ناکردہ گناہوں کی معافی طلب کرواتے-
پتلیوں کے دیس میں مداری ظلم کے خلاف بولتےنہ ہی ناانصافی کی مخالفت کرتے- یہ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق خود کہنے نہ کسی کو کہنے دیتے بلکہ عوام کو ذلت قبول کرنے کا درس دیتے- وہ ہر خرابی کو خدا کی مرضی قرار دیتے- غربت اور استحصال کو قسمت کا لکھا قرار دیتے اور مظلوموں کو ہی معافیاں مانگنے کو کہتے-
ایسا نہی تھا کہ اس دیس میں حق گو, سچے اور مخلص علماء اور فضلاء کی کمی تھی- در حقیقت پتلیوں کے دیس میں خوددار, دینداراورکلمہ حق کہنے والے عالم موجود تھے جو اللہ کی مخلوق سے محبت کرنے تھے مگر چونکہ ایسے علماء خوشامدی نہیں ہو تے تھے اس لیئے وہ حکمرانوں کے پسندیدہ نہ تھے بلکہ اکثر ایسے علماء کو حکمرانوں کے عتاب کا سامنا کرنا پڑتا تھا-
پتلیوں کے دیس میں صرف مداریوں کو اھمیت حاصل تھی کیونکہ مداری عوام کے سامنے حکمرانوں کی ڈھال بن جاتے، یہ عوم کو عقیدت اور محبت کا واسطہ دے کر انہیں حکمرانوں کی حمایت کرنے کی تلقین کرتے- یہ عوام کو اپنے حقوق کے لیئے اواز اٹھانے سے روکتے اور نظم کی تبدیلی کو بغاوت قرار دیتے، حکمت کی بجائے قسمت کے اسرے پہ رھنے کا درس دیتے- وہ علم, بصیرت, مثبت سوچ اور روشن خیالی کے مخالف تھے اور زندگی پر موت کو فوقیت دینے کی باتیں کیا کرتے تھے-
حکمرانوں کی مدد اور اشیرباد سے محلات رھنے اور قیمتی گاڑیوں میں گھومنے والی یہ جعلی مقدس شخصیات عوام کے شعور اور انکے حقوق کے خلاف تھیں- مداری تنگ نظری، جہالت، توہم پرستی اور شخصیت پرستی کے استعارے تھے- یہ نفرت اور تعصب کے بیوپاری تھے، جنکا واحد مقصد عوام کے جذبات سے کھیلنا اور ان کو قصے کہانیوں میں الجھائے رکھنا تھا، یہ پتلیوں کو ہر وقت احساس گناہ اور احساس کمتری میں مبتلاء رکھتے، اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ وہ نااھل اور جعلی حکمرانوں کو تسلیم کرلیں،
انہی مداریوں کی وجہ سے پتلیوں کے خوبصورت اور روشن دیس میں تاریکی بڑھتی چلی گئی اور بلااخر وہ دیس جس نے بہت اگے جانا تھا, دنیا کی قیادت کرنی تھی وہ پتھر کے زمانے میں واپس چلا گیا،
Load/Hide Comments