مولانا طارق جمیل صاحب وہی کررہے ھیں جو کہ انہیں اتا ھے یا جسے وہ درست ما نتے ھیں- شائد وہ تقلید پر یقین رکھتے ھیں اور اسی کو ایک نئے اور دلکش انداز میں دہرا رھے ھیں- انکی مقبولیت کی وجہ ان کی ابلاغ کی بہترین صلاحیت ھے- وہ اپنے ناظرین اور سامعین کی نفسیات کو بہت اچھی طرح سمجھتے ھیں-
میں مولانا طارق جمیل صاحب کے علم کی سطح سے واقف نہیں ہوں اس لئے انکی علمی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرسکتا البتہ میں ان کے انداذ بیان سے متاثر ھوں بلکہ ان کوسن کر لطف اندوذ بھی ھوتا ھوں- وہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اگلے جہان میں ایک خوبصورت زندگی کا یقین دلاتے ھیں، اپنے سننے والے کو خوفزدہ بھی کرتے ھیں مگر ساتھ ہی میں ایک حسین و جمیل مستقبل, جو کہ مقدس بھی ھے, انہیں اس کی امید بھی دلاتے ھیں-
مولانا طارق جمیل صاحب کی حیرت انگیز خصوصیت ان کی رونے کی صلاحیت ھے- دیکھنے اور سننے والے انہیں روتا دیکھ کر خود بھی رو پڑتے ھیں- مولانا صاحب کی باتیں سن کر رونے والوں کو احساس ھوتا ھے کہ پروردگار کے سامنے رونے اور گڑ گڑانے سے اللہ ضرور رحم فرماتے ھیں- یہ بہت بڑی تسلی ھے جو مولانا طارق جمیل صاحب کے زریعے لوگوں کو ملتی ھے ویسے بھی رونے سے انسان کے دل و دماغ کا بوجھ ھلکا ھوتا ھے اور انکھوں کی صفائی بھی ھوتی ھے-
دنیا کی دیگر اقوام کو ھماری طرح رونے کا وقت اور موقع نہیں ملتا یہی وجہ ھے کہ دوسرے معاشروں خصوصا” مغربی ممالک میں لوگ سوال اٹھاتے ھیں, جواب طلبی کرتے ھیں اور اپنا زیادہ وقت سوچ بچار میں صرف کرتے ھیں- بیرونی دنیا میں لوگ لکھتے پڑھتے ھیں, پاکستان میں ھم سنتے بولتے ھیں- مغربی ممالک میں لوگ تنقیدی سوال کرتے ھیں، تنقیدی سوچ پر یقین رکھتے ھیں ہم مگر صبر شکر کرنے والی قوم ہیں صرف روتے اور اللہ سے شکایتیں لگا تے ھیں- مغربی لوگ کیا جانیں خود سپردگی کیا ھوتی ھے یہ ہم ہیں جو ہر وقت خود سپردگی کے لیئے تیار رھتے ھیں اور اس میں گہرا یقین رکھتے ھیں-
مغرب تحقیق و جستجو مصروف ھے ھم نے یہ کام مولانا طارق جمیل صاحب اور ان کے ھمنواوں کے حوالے کر رکھا ھے- جب ھم طارق جمیل صاحب کی اہ و فریاد سنتے ھیں انکا گڑ گڑانا دیکھتے ھیں توھمارا ایمان مضبوط اور دل ھلکا ھوجاتا ھے، طارق جمیل صاحب ھماری توجہ ان گناہوں کی طرف دلواتے ھیں جو ھماری پیٹھوں پر لدے ھوئے ھیں ، وہ اپنی عاجزانہ دعاوں اور گریہ و زاری کے زریعے ھمیں گناہوں کو ہلکا کرنے کا موقع فراہم کرتے ھیں-
مولانا طارق جمیل۔صاحب کا تعلق تبلیغی جماعت سے ھے جو خود کو غیر سیاسی کہتی ھے- تبلیغی جماعت میں کئی جماعتوں اور مختلف سوچ کے لوگ شامل ھیں- سپاہی سے لیکر جرنیل اور کلرک سے لیکر سینئر بیورو کریٹ تک تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں- چھوٹے بڑے تاجر، مزدور اور کسان سب تبلیغی جماعت میں شامل اور اکثر چلے کاٹتے ھیں- تبلیغی جماعت لوگوں کے اخلاق بہتر بنانے پر توجہ دیتی ھے- خیبرپختونخوا کے ایک سابق چیف سیکرٹری اور افغانستان میں پاکستان کے ایک سابق سفیر افغانستان میں کشت و خون د یکھنے اور اس کا حصہ بننے کے بعد اپنے گناہوں کو دھونے کے لیئے تبلیغی جماعت میں سرگرم عمل رہے اور پھر پاک صاف ھوکر انہوں نے پی ٹی ائی میں شمولیت اختیار کر لی-
تبلیغی جماعت کے مقابلے میں جمیعت علماء اسلام (ف) جماعت اسلامی یا دیگر مذھبی جماعتتں سیاسی ھیں- ان کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے- یہ جماعتیں سوال اٹھاتی ھیں, حکمرانوں کو چیلنج کرتی ھیں, عوام کو منظم کرتی ھیں, سیاسی جدوجہد یعنی لڑائی پر یقین رکھتی ھیں اور اکثر تحریکیں چلاتی ھیں- یہ جماعتیں نظام بدلنے کی بھی بات کرتی ھیں ، مگر تبلیغی جماعت کی کوئی سیاسی تنظیم ھے نہ یہ نظام بدلنے کی بات کرتی ھے، یہ تو بس فرد کی اصلاح اور وہ بھی ایک مخصوص انداز میں کرنا چاھتی ھے-
تبلیغی جماعت خود کو غیر سیاسی کہتی ھے- لیکن حقیقت میں ایک لحاظ سے تبلیغی جماعت کا طریقہ کار سیاسی ھے اور اپنے اندر ایک خاص مقصدیت لیئے ھوئے ھے- شائد وہ مقصد یہ ھو کہ لوگ غیر سیاسی رھیں- فرد منظم سیاسی جماعتوں کا حصہ بننےکی بجائے اپنی اصلاح پر توجہ دے- تبلیغی جماعت حکمت, عقل اور سیاسی یا سائنسی طریقہ کار ساتھ ساتھ بلکہ اس سے زیادہ قسمت اور توکل پر یقین کرنے کی تلقین کرتی ھے- یہ لوگوں کو اپنےاعمال درست کرنے کی تربیت دیتی ہے اور انہیں بتاتی ہے کہ غلطی لوگوں میں ھے لحذا انہیں معافی مانگنی چاھئے، اللہ کے حضور عاجزی کے ساتھ رونے اور گڑگڑانے سے وہ ھمیں معاف کرد یتے ھیں- تبلیغی جماعت کے طارق جمیل جیسے خطیب ھمیں اس دنیا میں بیٹھ کر اپنے علم اور تخیل کی بدولت جنت کے نظارے کرواتے ھیں اور نوید دیتے ھیں کہ ھم جب جنت میں جائینگے تووہاں طویل القامت اور حسین حوریں ھماری منتظر ھیں،اور ان گنت دوسری نعمتیں ھمیں حاصل ھونگی-
میرے خیال میں تبلیغی جماعت اور اسکے خطیبوں کا کردار بہت اھم ھے یہ پرامن، غیر سیاسی لوگوں کی جماعت ھے جو ھمیں سیاست کی الودگیوں سے دور رکھتی ھے- سیاسی جدوجہد خصوصا سیاسی تنازعات میں ملوث نہیں ہوتی اور حکمرانوں یا بالادست طبقات سے اختلاف اور تصادم سے گریز کرتی ھے- طارق جمیل ھمیں صبر و شکر سے کام لیکر اخرت سنوارنے کا درس دیتے ھیں- ھمیں ان عظیم خدمات پر ان کا اور تبلیغی جماعت کا شکر گزار ھونا چاھئے-