طالبان حکومت اور پاکستان کے تعلقات میں بڑھتی کشیدگی،

دی خیبرٹائمز خصوصی تحریر
30 اکتوبر 2025: افغانستان اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں استنبول میں مذاکرات کا تیسرا دور شروع کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ اجلاس اس جنگ بندی کو مستحکم کرنے کے لیے منعقد ہو رہا ہے جو 18 اور 19 اکتوبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئی تھی۔
مذاکرات میں شامل دونوں فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے اور اس کے نفاذ کے مزید طریقہ کار پر 6 نومبر کو استنبول میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں غور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ایک نگرانی اور تصدیقی نظام کے قیام پر بھی اتفاق ہوا ہے جو امن کی حفاظت کو یقینی بنائے گا، اور خلاف ورزی کرنے والے فریق کو جرمانہ کرے گا۔
ترکیہ اور قطر نے ثالث کی حیثیت سے مذاکرات میں دونوں ملکوں کی فعال شرکت پر شکریہ ادا کیا اور امن و استحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت (اسلامی امارت افغانستان) اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ سرحد پار دہشت گردی میں اضافے، ناکام سفارتی کوششوں اور متعصبانہ بیانات نے خطے میں مستقل کم شدت کے تنازعے کو جنم دیا ہے۔
اہم مسئلہ مذاکرات کی ناکامی اور متصادم مطالبات ہیں جہاں پاکستان نے افغان سرزمین پر تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے خلاف مؤثر کارروائی کا مطالبہ کیا، جبکہ کابل نے فضائی حدود کی خلاف ورزی اور ڈرون پروازوں کی روک تھام پر زور دیا ہے۔ یہ اختلاف مذاکرات میں تعطل کی بنیادی وجہ بنا۔
TTP افغانستان میں افغان طالبان حکومت کا نظریاتی بھائی ہونے کے باوجود ایک تزویراتی مسئلہ ہے۔ اگر کابل TTP کے خلاف اقدامات کرے تو ان جنگجوؤں کا داعش خراسان (ISK) میں شامل ہونے کا خطرہ ہے، جو طالبان حکومت کے لیے داخلی خطرہ ہے۔ اس لئے کابل حکومت اس پر مکمل دباؤ ڈالنے سے گریزاں ہے، جبکہ پاکستان کے لیے یہ گروہ قومی سلامتی کا براہِ راست خطرہ ہے۔
اکتوبر 2025 میں پاکستان نے افغان سرزمین پر TTP رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لئے فضائی حملے کئے، جن کا مقصد سزا پر مبنی جوابی کارروائی کا آغاز تھا۔ پاکستان نے ان حملوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت دفاعی اقدام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کی قیمت بڑھ جائے گی۔
موجودہ کشیدگی صرف زمینی حملوں تک محدود نہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر بھی جارحانہ بیانات، نفرت انگیز پوسٹس، اور دھمکی آمیز تبصروں نے ماحول کو کشیدہ کر دیا ہے۔

مسائل کے باوجود، فوجی اور تزویراتی اعتبار سے پاکستان کو برتری حاصل ہے، مگر کشیدگی کے منفی اثرات بلوچستان، چمن، طورخم اور غلام خان کی سرحدی گزرگاہوں پر تجارت کی بندش کی صورت میں دونوں ممالک کی معیشتوں کو متاثر کر رہے ہیں۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی سلامتی پر ہونے والے اثرات کے بارے میں متفکر ہے کیونکہ TTP کی سرحدی شورش منصوبے کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی ملک بدری نے عالمی انسانی حقوق تنظیموں کی تشویش میں اضافہ کیا ہے اور خطے کے تعلقات کو مزید کشیدہ کیا ہے۔
خطے میں دیرپا امن کے لیے چین، قطر، ترکی اور ایران کی ثالثی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) بھی سرحدی نگرانی کے نظام یا تصدیقی مکینزم کے قیام میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔

مبصرین کے مطابق پاکستان کو TTP سے براہِ راست مذاکرات سے گریز کرنا چاہیے اور درست انٹیلی جنس پر مبنی جوابی کارروائیاں جاری رکھنی چاہئیں، ساتھ ہی سرحدی نگرانی اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
کابل کو ISK کے خلاف علاقائی حکمت عملی اپنانے اور TTP کے خلاف قابلِ تصدیق اقدامات کرنے چاہئیں، نیز تجارت اور ٹرانزٹ کے بدلے پائیدار امن معاہدے کی حمایت کرنی چاہیے۔

علاقائی قوتوں، خاص طور پر بیجنگ، کو CPEC کی سلامتی کے تناظر میں ثالثی کا فعال کردار ادا کرنا چاہیے، جبکہ قطر اور ترکی کو مذاکرات کے عمل کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کیلئے اقدامات اپنانے کی ضرورت ہے۔
دونوں ممالک کی سوشک میڈیا کا اشتعال پر مبنی استعمال شروع ہے، جس میں افغانستان سے سیکیورٹی اہلکار بھی غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے جو پاک فوج کا ترجمان بیان جری کرنے کا مجاز ہے، کوئی دوسرا سیکیورٹی اہلکار افغانستان کے ساتھ کشیدگی کے حوالے سے سوشل میڈیا کے استعمال کا سوچ بھی نہیں سکتے، تاہم افغانستان کے صورتحال اس کے برعکس ہے۔
پاکستان اور افغانی عوام دونوں سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہورہاہے، جس کی تدارک تو ممکن نہیں، تاہم اس کیلئے مستقل طور پر دونوں ممالک کو ایک مربوط لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔

موجودہ صورتحال ایک “منجمد جنگ” کی مانند ہے جہاں مکمل امن یا تصادم نہیں، اور آئندہ بارہ ماہ میں سرحدی جھڑپیں، فضائی حملے اور سفارتی بیانات کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔ تاہم، اگر کوئی بڑا TTP حملہ ہوتا ہے تو کشیدگی ایک محدود مگر خطرناک جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔ امن کا راستہ صرف اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعتماد سازی، انسداد دہشت گردی میں شفاف تعاون اور علاقائی ثالثی سے ممکن ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں