بلند پہاڑوں کے دامن میں واقع یونین کونسل تیرات شاہ گرام مدین ضلع سوات میں دریاکے کنارے بیٹھا ڈاکٹرعارف اپنے مکان کی جانب بے خیالی سے دیکھ رہاتھا جواگست کے آخری ہفتے طوفانی بارشوں کے نتیجے میں بچ گیاتھا تاہم انکے قریب دوگھر سیلابی ریلے کی نذرہوئے تھے ڈاکٹرعارف بتاتے ہیں کہ انکاگھردریائے سوات کے کنارے ایک پہاڑی درے میں واقع ہے28اگست کی رات12بجے جاری بارش کے باعث جب انکے گھرکے قریب نالے کاشوربڑھاتوانہیں خطرے کی گھنٹی محسوس ہوئی گھرسے باہر نکلا توسیلابی پانی کاریلاانکے گھرکے قریب سے گزررہاتھااورآنیوالے لمحے میں انکی شدت میں اضافہ ہورہاتھااپنے بھائی کوآوازدی اور سب سے پہلے اپنے بچوں اور عورتوں کوکچھ فاصلے پر واقع رشتہ دارکے گھرمنتقل کردیا اوراسکے بعد گھرسے سامان کی منتقلی کاعمل شروع ہوا لگ رہاتھا2010کے سیلاب کانظارہ ہے ریلے کی شدت میں اضافہ ہورہاتھااوریوں لگ رہاتھاکہ جیسے کچھ دیرمیں میرانیاگھر سیلابی ریلے کی نذرہوجائے گاقریب واقع دوگھر پہلے ہی خالی کئے جاچکے تھے ٹارچ کی لائٹ سے دیکھا تودونوں مکانات دریابردہوچکے تھے توبہ استغفارکرنے لگا اس دوران پانی میرے گھرکے بنیادوں تک پہنچ چکاتھا بارش رک گئی سیلابی ریلے کی شدت میں کمی ہوئی گھرکے بچنے کی خوشی محسوس ہوئی لیکن پڑوس کے دوگھروں کی تباہی پربھی افسردہ تھا ڈاکٹرعارف سمیت مدین کے مختلف وادی میں رہنے والے ہزاروں افراد اگست کے آخری ہفتے میں شدیدبارشوں کے باعث متاثرہوئے ہیں یہاں کے باسی جب بھی ساون کا موسم آتاہے تو انکے دلوں میں خوف بیٹھ جاتاہے ،آج بھی سیلاب زدہ گورنمنٹ مڈل سکول دامانہ کے باقیات کو دیکھ کر ڈاکٹرعارف کا دل اداس ہوجاتاہے وہ سمجھتے ہیں کہ جنگلات کی کٹائی کاسب سے زیادہ نقصان پہاڑی علاقوں میں ہواہے جہاں پر لینڈسلائیٹنگ ،برساتی نالوں کاچڑھنااورسیلاب اس کے مضرترین اثرات میں شامل ہیں,
درخت واحدذریعہ ہے جسکے ذریعے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاجاسکتاہے ۔ پراونشل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق خیبرپختونخواکے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث 84افرادجاں بحق اور100سے زائدزخمی ہوئے ہیں جن میں 20سے زائدکاتعلق سوات کے علاقے مدین ،بحرین اورکالام سے ہے حالیہ سیلاب کے نتیجے میں صرف سوات کے183مکانات بھی تباہ ہوئے ۔مدین کے رہائشی اورسابق رکن صوبائی اسمبلی سید جعفرشاہ کہتے ہیں کہ ان کاگھر پہاڑکی چوٹی پر واقع ہے تاہم دریاکے کنارے سینکڑوں مکانات ،دکانیں اورمارکیٹس کے علاوہ ایک مسجد بھی سیلابی ریلے کی نذرہوگئے جعفرشاہ بتاتے ہیں کہ2010میں سیلابی ریلے کے باعث مدین ،بحرین اورکالام کا زمینی رابطہ ملک کے دیگرحصوں سے منقطع ہواتھا ہیلی کاپٹرکے ذریعے سامان پہنچایاجاتارہا حالیہ سیلاب کے نتیجے میں بیشتر کچے مکانات منہدم ہوگئے انہوں نے خدشہ ظاہر کیاکہ آبادی میں اضافے کے باعث دریاکے کنارے سینکڑوں مکانات تعمیرکئے گئے ہیں اگردس سال بعد موسمیاتی تغیرات کے باعث سیلاب آتارہا تو اگلے سالوں میں تباہی کے خدشات میں مزید اضافہ ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات ملک کے مختلف علاقوں میں 2010 ، 2011 ، 2012 ، 2013 اور 2014 کے سیلاب سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں این ڈی ایم اے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2010کاسیلاب خیبرپختونخواکی تاریخ کا سب سے بدترین سیلاب تھا جسکی تباہ کاریوں نے صوبے کے24اضلاع کواپنی لپیٹ میں لئے رکھا جن میں10اضلاع شدیداور14جزوی طو رپر متاثرہوئے پورے ملک میں اس سیلاب کے نتیجے میں ایک ہزار985لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں جب کہ دوہزار946افرادزخمی ہوئے جب کہ18لاکھ94ہزار530مکانات کونقصان پہنچا مجموعی طورپر دوکروڑدولاکھ51 ہزار550لوگ اس سیلاب سے متاثرہوئے۔2010کے سیلاب میں خیبرپختونخواکے ضلع سوات کے بالائی علاقوں میں مدین اور تیرات کے یونین کونسل سیلاب سے متاثر ہوئے سیلاب کے دوران ان علاقوں میں پانی کی سطح تقریبا 120فٹ یا اس سے اوپر تھی آبپاشی کے چینلز ، پانی کی فراہمی ، کھیتوں اور کچھ مکانات کو نقصان پہنچا مین سڑکیں ، پل ، مواصلات اوربجلی سیلاب سے بہہ گئی اور خوراک کی قلت پیداہوئی ۔پاکستان میں ماہرین کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی عروج پر رہی جس سے مجموعی طورپر ملک بھرمیں جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے پاکستان کا شمار اب دنیا کے ان ممالک میں ہے جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں پاکستان میں جنگلات پر تحقیق کرنے والے سرکاری تدریسی ادارے پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کیمطابق ملک میں 90 کی دہائی میں 35 لاکھ 90 ہزار ہکٹر رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گیاادارے کے مطابق 2002 میں جنگلات کا رقبہ بڑھ کر 45 لاکھ ہیکٹر تک پہنچا یعنی مجموعی طورپر ملک میں پانچ اعشاریہ ایک فیصد رقبہ جنگلات پرمشتمل ہے تاہم جنگلات پرکام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او اور دیگر اہم غیر ملکی ادارے ان اعداد و شمار کو درست نہیں مانتے، قومی جنگلاتی پالیسی2015 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پوری دنیامیں25فیصدکے مقابلے میں پاکستان میں صرف پانچ فیصد جنگلات محفوظ ہیں پاکستان ہرسال نجی اور معاشرتی ملکیت والے جنگلات میں 27ہزارہیکٹر جنگل سے محروم رہتا ہے۔ خیبرپختونخواکے وزیر ماحولیات وجنگلات اشتیاق ارمڑنے رابطے پربتایاکہ دنیا اسوقت ریگستان کی طرف جارہی ہے صوبے کے جنوبی اضلاع میں بارشیں پانچ فیصدکم ہیں2016میں 15فیصدبارشیں مزیدکم ہونے کاخدشہ تھا اسکے حل کیلئے صوبائی حکومت نے فیصلہ کیاکہ صوبے میں جنگلات بڑھائینگے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ صوبہ خیبرپختونخوا فلیگ شپ منصوبہ ہے جوکلائمیٹ چینج کوبہالے جائیگاانہوں نے کہا کہ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کوویڈ19، آب وہوامیں تبدیلی، سیلاب،آ لودگی، صحرا، خشک سالی اورجنگلات کی کٹائی کیخلاف جنگ میں ملک کیلئے گیم چینجرمنصوبہ ثابت ہوا ہے اسکے علاوہ بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اس منصوبے کوسراہاہے ،پی ٹی آئی حکومت نے جرمنی کی بون چیلنج این جی اوکیساتھ مل کراپنے ہدف کوپوراکرکے مقررہ وقت سے پہلے ایک ارب درختوں کے منصوبے کے تحت2014- 17میں ریکارڈ تین لاکھ48 ہزارہیکٹرتباہ شدہ جنگلات کی بحالی کاکام مکمل کیا جوملک کیلئے ایک بہت بڑااعزاز ہے، ڈبلیوڈبلیوایف، بون چیلنج، آئی یوسی این، سی اوپی۔21 اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بلین ٹری سونامی منصوبہ کوتسلیم کیا اوراسکی تعریف کی ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق منصوبے کے تحت درختوں کی بقا کی شرح 88 فیصد ہے اور پانچ لاکھ سے زیادہ افراد کو ملازمت فراہم کی گئی ہے۔
وزیرجنگلات نے مزید بتایا کہ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے پہلے مرحلے میں حکومت نے 5 ارب روپے کی بچت کی ہے منصوبے کیلئے بجٹ میں22ارب مختص تھے جس میں اپنے تمام اہداف کو 17 ارب روپے مکمل کیا انہوں نے کہا کہ جنگلاتی آرڈیننس 2002 کونئے قبائلی اضلاع تک بڑھایا گیا ہے اوردرختوں کے تحفظ کیلئے 38 نئی جنگلاتی چیک پوسٹیں قائم کی گئیں باغات کی موثر نگرانی کے لئے گاوں کی سطح پردوہزار60کمیٹیاں اور200 خواتین آرگنائزیشنز تشکیل دی گئیں صوبائی وزیر نے کہا کہ بڑھتی آبادی کی لکڑی کی ضروریات کو پورا کرنے اور موجودہ جنگلات پر دباوکو کم کرنے کے علاوہ یوکلیپٹس درخت آبی علاقوں میں بہت مفید ہے۔ موجودہ وزیراعلی محمودجان جن کا تعلق تحصیل مٹہ ضلع سوات سے ہے ،نے اگست میں متاثرہ اضلاع کادورہ کیا جنہوں نے اس موقع پر سیلابوں کی بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی قراردیتے ہوئے ٹمبرمافیاکیخلاف کریک ڈائون کااعلان کیا اورکہاکہ اس ضمن میں ہم نے مستقبل کی پلاننگ کیلئے گزشتہ دور حکومت میں بلین ٹری سونامی شجرکاری کا منصوبہ شروع کیا اور اب مرکز ی حکومت نے 10 بلین ٹری پلانٹیشن کا منصوبہ شروع کیا ہے تاکہ موجودہ جنگلات کو بچایا جائے اور اس کو مزید فروغ بھی دیا جائے۔ خیبرپختونخواکے ضلع سوات کے مرکزی شہرمینگورہ سے 60کلومیٹرکے فاصلے پربلندپہاڑوں کے دامن میں واقع یونین کونسل تیرات شاہ گرام تحصیل بحرین کاعلاقہ اپنی خوبصورتی ،پرفضا ماحول ، گھنے جنگل اورپرکشش باغات کی وجہ سے پورے ضلع میں اپناالگ مقام رکھتاہے موسم گرماکی شام کی ٹھنڈی ہوائیں ہرکسی کواس کے علاقے کی طرف کھینچ لاتی ہے آبشاراورچھوٹے چشموں کے جھومرمیں پایاجانیوالایہ علاقہ شرح خواندگی کے لحاظ سے بھی منفردحیثیت رکھتاہے تاہم اگرسیلاب کی روک تھام کیلئے جنگلات کے تحفظ کو یقینی نہ بنایاگیا تو اس وادی کی خوبصورتی یونہی دریابردہوتی رہے گی