ایک نظر وزیرستان کےاس تباہ حال تحصیل پر بھی. خصوصی اشاعت

شاھین وزیر
معمول کی زندگی گزر رہی تھیں۔ لوگ اپنی زندگی انتہائی پرسکون اور اچھے طریقے سے بسر کر رہے تھے۔ بازار گرم تھے، کاروباری زندگی اپنے جوبن پر تھیں، پہاڑوں کے بیچ دکانوں میں لوگوں کا رش ہوا کرتا تھا۔ پڑوسی ملک سے بھی تجارت ہوا کرتی تھیں حتیٰ کہ مقامی لوگ اپنے مقامی چیزوں سے زیادہ پڑوسی ملک کے اشیاء خریدنا پسند کرتے تھے جبکہ یہاں کے مقامی اشیاء کی مانگ پڑوسی ملک میں زیادہ تھیں جس کے باعث پڑوسی ملک کے لوگ ان اشیاء کو خریدنے کیلئے ترستے تھے اور ان اشیاء کو خریدنے کیلئے منہ مانگی قیمت ادا کرتے تھے۔
پتہ نہیں اس خوبصورت طرز زندگی کو کس بدبخت کی نظر لگ گئی، پہاڑوں کے دامن میں اس چھوٹے سے بازار کی دکانوں میں رش کم ہونے لگا اور یہ دکانیں زیادہ دیر بند رہتی تاہم کبھی کبھار تھوڑے وقت کیلئے کھل جاتی تھیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات مزید خراب ہونے لگے ۔ چند اجنبی لوگوں پر منحصر گروہوں نے اس علاقے کا رخ کرلیا۔ جس کے باعث پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کی خاطر اس وقت کی حکومت اور پاک فوج نے وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا تاکہ اس علاقے میں دوبارا آمن و امان کی بحالی کو ممکن بنایا جاسکے۔ جس طرح پورے وزیرستان میں امن کی بحالی کیلئے عسکری قیادت کی جانب سے آپریشن شروع کیا گیا بالکل اسی طرح تحصیل دتہ خیل میں بھی فوج نے آمن کی بحالی کی خاطر دھیرے ڈال دئیے ۔
اس پاک وطن اور مٹی کی بقاء اور اپنے علاقے میں امن و امان کی بحالی کی خاطر تحصیل دتہ خیل کے باسیوں نے ملک کے دیگر شہروں کا رخ کیا۔ اور وہاں پر اپنی زندگی بسر کرنے لگ گئے۔
تقریبآ چھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد تحصیل دتہ خیل کے مہاجرین کی آدھی آبادی جب دوبارا اپنے علاقوں کو واپس لوٹنے لگ گئیں اور انکو اپنی کاروباری مراکز دوبارا سے کھولنے کی اجازت مل گئی تو انکی دکانیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھیں۔
تحصیل دتہ خیل وزیرستان کے تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے زیر محمد کے مطابق ” آپریشن ضرب عضب سے پہلے ان بازاروں میں لکڑی، کرومائیٹ، کوئلے ، میگنیز، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں ، خشک میوہ جات اور کمپیوٹر سمیت دیگر اشیاء پڑوسی ملک افغانستان سے براستہ لوڑے منڈے اور شوال کے راستے سے با آسانی پہنچ رہے تھے۔ ہر مزدور روزانہ کی بنیاد پر تقریباً آٹھ ہزار روپے تک کما سکتا تھا اور دکاندار روزانہ کے حساب سے تقریباً چالیس ہزار سے لیکر پچاس ہزار روپے تک کی اشیاء فروخت کیا کرتے تھے”
زیر محمد نے موجودہ حالات پر بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” اب کاروبار کا کوئی مزہ نہیں کیونکہ افغانستان سے جو اشیاء یہاں پر آتی تھیں وہ بھی اب نہیں آ رہی۔ آپریشن ضرب عضب میں تحصیل دتہ خیل کی جتنے بھی دکانیں تباہ ہو چکی تھیں ان دکانوں کا معاوضہ دکان مالکان کو ابھی تک ادا نہیں کیا گیا البتہ میران شاہ بازار کی جتنے بھی دکانیں آپریشن میں خراب ہو چکی تھیں ان دکانوں کے مالکان کو حکومت کی جانب سے ادائیگیاں کرا دی گئیں ہیں۔” زیر محمد کے مطابق” ہم نے تقریباً نو ہزار دکانیں جو کہ تباہ ہوچکی تھیں اسکی فہرست ہم نے اعلیٰ حکام کو دیا تاکہ وہ اس حوالے سے کچھ اقدامات کریں۔”

مقامی لوگوں کے ان تحفظات کے بارے میں جب ہم نے تحقیقات شروع کی اور پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعلیٰ حکام کو تحصیل دتہ خیل کے مقامی لوگوں کے شکایات اور تحفظات کے بارے میں آگاہ کیا اور اس مسئلہ پر انکا موقف جاننے کے کوشش کی تو پی ڈی ایم اے کے اعلیٰ ذمہ داران کا کہنا تھا کہ ” وزیرستان کے علاقے تحصیل دتہ خیل کے بازار کے دکانوں کے بارے میں نہ توہمیں کوئی فہرست دی گئی ہے اور نہ ہمارے پاس اس کی کوئی تفصیل موجود ہے اور نہ ہی ان دکانوں کے معاوضے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی فنڈ مختص کیا گیا ہے” تاہم انکا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ اس کے بارے میں آپ مزید تفصیلات وزیرستان کے اعلیٰ افسران سے جان سکتے ہیں۔

جب ہم نے اس مسئلے پر وزیرستان کے اعلیٰ افسران سے مزید تفصیلات جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے نام نہ بتانے کے شرط پر ہمیں معلومات فراہم کی۔ انکا کہنا تھا کہ ” اس مسئلے کے حل کیلئے ہم نے کمیٹی تشکیل دی ہیں تاہم کمیٹی نے ابھی تک اس پر کوئی میٹنگ نہیں بلائے اور نہ ہی ابھی تک اس پر کوئی پیشرفت ہوئی ہے”۔

وزیرستان کے تحصیل دتہ خیل کا بازار جہاں ہر وقت گہما گہمی ہوتی تھی اور کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہوتی تھی تاہم اب اس بازار کا نہ وہ شکل باقی رہی اور نہ وہ حسن بحال رہا۔ اگر حکومت اور اعلیٰ حکام کا یہی رویہ رہا تو اس طرح کے اور بھی بازاریں ویران ہونے لگ جائے گی جس کا براہِ راست اثر نہ صرف کاروباری افراد پر پڑے گا بلکہ اس سے ملک کی تباہ حال معیشیت مزید تباہی کی طرف گامزن ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ تحصیل دتہ خیل بازار کے دکانوں کے مالکان کیلئے معاوضوں کے حوالے سے اقدامات کرے اور اس کیلئے کوئی عملی پیشرفت اور لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ ان مقامی لوگوں کے نقصانات کا ازالہ ہوسکے اور تحصیل دتہ خیل بازار کی رونقیں دوبارا بحال ہوسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں