قبائلی علاقوں میں امن امان کی دگرگوں حالت۔۔۔۔ تحریر: احسان داوڑ

شمالی وزیرستان میرعلی کے علاقے میں گذشتہ روز ایپی داوڑ اور مدی خیل وزیر قبیلوں کے مابین اراضی کے تنازعہ پر بین القبائل جنگ چھڑ گئی جس میں اخری اطلاعات کے مطابق ایک شخس جاں بحق جبکہ پانچ کے قریب زخمی ہوئے جن میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دونوں جانب سے اس لڑائی میں بھاری اسلحے کا آزادانہ استعمال بھی کیا گیا۔ سر دست یہ تو معلوم نہ ہوسکا کہ ڈی ایس پی اور حوالدار کیسے زخمی ہوئے لیکن اس لڑائی سے کچھ سوالات نے ضرور جنم لیا ہے جس میں سب سے پہلے تو یہ سوال بنتا ہے کہ اپریشن ضرب عضب کے بعد جب شمالی وزیرستان کے گھر گھر کو اسلحے سے پاک کیا گیا اور اربوں روپوں کا اسلحہ بحق سرکار ضبط بھی کرلیا گیا تو اس کے بعد دونوں قبائل کو اسلحہ کہا ں سے اور کس نے مہیا کر دیا۔ سابقہ ایف سی ار کا زمانہ ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ حکومت کی رٹ صرف مین روڈ تک محدود ہے اس لئے اگر قبائل نے کسی بھی طور سے اسلحہ حاصل کرلیا ہے تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں لیکن اب جبکہ علاقے میں باقاعدہ عدالتیں کام کر رہی ہیں اور پولیس فورس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ساتھ ہی ساتھ پاک فوج کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد علاقے میں موجود ہے۔ایسے میں اتنی بھاری مقدار میں اسلحے کا استعمال اور وہ بھی ایک ایسے علاقے میں جو میرعلی کینٹ ایریا سے بمشکل دو کلومیٹر ہی کے فاصلے پر ہے، سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ ہم یہ بالکل نہیں کہتے کہ مرجر کے بعد یہاں جنت نظیر امن قائم ہو چکا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا اور اب بھی ہورہا ہے، نہ پہلے حکومتی رٹ نام کی کوئی چیز تھی اور نہ اب نظر ارہا ہے تو پھر اس مرجر اور اس نئے نظام کا فائدہ کیا ہے؟ گوکہ دونوں قبیلوں کے مابین جنگ بندی ہو چکی ہے جس کا سارا کریڈیٹ اتمانزئی مشران کو جاتا ہے لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ صورتحال دوبارہ پیدا نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھئے : شمالیوزیرستانمیںجاریکشتوخون۔۔احسانداوڑ

ہماری اطلاعات کے مطابق مدی خیل اور ایپی دونوں قبائل کے مابین مذکورہ تنازعہ کافی عرصے سے چلا ارہا ہے اور عدالت تک دونوں فریق پہنچے ہیں لیکن نہ تو مقامی انتظامیہ، نہ پولیس اور نہ ہی عدالت کی طرف سے ایسا کوئی انتظام سامنے ایا ہے جس میں دونوں فریق کو تشدد سے باز رکھنے اور جنگ نہ کرنے کی گارنٹی لی گئی ہو۔مقامی انتظامیہ یا تو قصداً اس تنازعے کو حل نہیں کررہی اور یا پھر ان میں اتنی اہلیت ہی نہیں کہ ایسے قومی تنازعات کو حل کرسکے حالانکہ علاقائی تناظر میں اگر اس صورتحال کو لیا جائے تو مقامی مشران و عمائدین کی مدد سے اس تنازعے کو حل کرنا کوئی خاص مشکل کام نہیں لیکن اس کیلئے دو باتیں ضروری ہیں اول یہ کہ مدی خیل اور ایپی دونوں اس تنازعے کو حل کرنا چاہتے ہو جو کہ ضرور کرتے ہونگے کیونکہ جہاں تک ہماری ان سے بات چیت ہوئی ہے، دونوں قبیلے اس صورتحال سے تنگ اچکے ہیں اور اس معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں کے درمیان رواج کا اپشن بھی موجود ہے اور قانون کا اپشن بھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ انتظامیہ اور مقامی مشران و عمائدین اخلاص کے ساتھ اس تنازعے کو حل کرنے کیلئے کوشش کریں جس کا واضح طور پر فقدان ہے۔ اس کے پیچھے بھی مختلف اسباب کارفرماہیں جس میں ایک تو جرگے کے مشران اور انتظامی افسران کی حرص و لالچ ہے اور دوسری بات جو شاید سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ داوڑ اور وزیر قبیلے کی طرف سے تنازعے کیلئے نامزد کردہ مشران ایسے معاملات میں انصاف کے بجائے اپنے قبیلے کی پشت پناہی کرکے حالات کو ایک ایسے موڑ پر لے اتے ہیں جہاں سے خون بہائے بغیر واپسی ممکن نہیں ہو تی۔ اب اس ساری صورتحال میں کون غلط ہے اور کون صحیح ہے اس بات کا تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ جس طرف بھی دیکھو انصاف کرتا ہوا نظر ہی نہیں اتا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب تک خون نہ بہے ہم کوئی ایکشن ہی نہیں لیتے حالانکہ اس تنازعے کو ایک عرصہ گذر چکا ہے اور چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن کیا کریں انتظامیہ اور عمائدین دونوں اس دن کے انتظار میں ہوتے ہیں جیسا کہ ابھی دیکھنے میں ارہا ہے۔ اس صورتحال میں بھی کچھ لوگ عدالت کے ذریعے سے اس معاملے کا حل دیکھ رہے تو کچھ رواج کی طرف نظریں جمائے ہو ئے ہیں۔ کوئی شرعی حل کا تقاضا کر رہا ہے تو کوئی انتظامیہ کو ہی اب بھی تمام امراض کا مسیحا گردانتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔
ایسے ہی قبائلی ضلع کُرم میں بھی دو قبیلوں طوری اور پاڑہ چمکنی کے مابین مرغئی چینہ کے شاملاتی اراضی کے تنازعے میں اطلاعات کے مطابق نو افراد جاں بحق ہو ئے ہیں جبکہ 37کے لگ بھگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اس لڑائی میں بھی بھاری اسلحہ کا ازادانہ استعمال ہو ا ہے اور دو تین دن تک یہ لڑائی جاری ہی جس کو بعد میں مقامی قبائل اور سرکاری فورسز نے بند کرایا ہے۔کُرم کے اس لڑائی کا خطرناک پہلو فرقہ وارانہ حساسییت بھی بتایا جاتا ہے کیونکہ یہ علاقہ فرقہ ورانہ تشدد کے لحاظ سے کافی حساس واقع ہوا ہے۔ ایسے ہی کچھ عرصہ پہلے باجوڑ اور مہمند قبائل کے مابین بھی اراضی کا تنازعہ سنگین نوعیت اختیار کرچکا تھا۔یہ تو وہ تنازعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں ایسے نجانے اور کتنے خطرناک تنازعات سر اٹھائے حکام کی توجہ کے منتظر ہیں لیکن شاید قبائلی علاقوں میں انتظامی اور امن امان کے ذمہ دار افسران کو ابھی تک ان علاقوں کے بارے میں بنیادی معلومات میسر نہیں ورنہ ان جیسے سارے تنازعات کو حل کرانے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی اشد ضرورت سے یوں انکھیں نہ چُراتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرجر کے بعد ضم شدہ اضلاع میں ترجیحی بنیادوں پر مبنی بر انصاف فیصلوں کیلئے تمام وسائل کو بروئے کار لائے جائیں جس میں رواج، قانون، شریعت اور صلح جوئی کے تمام طریقے ازمائے جائیں کیونکہ ضم شدہ اضلاع میں ابھی تک ایک قانونی خلاء موجود ہے جس کو پُر کرنے کیلئے وقت چاہئے اور قبائلی عوام کے موجود حالات اسی وقت کے انتظار کے متحمل نہیں ہوسکتے ورنہ یہاں اسی خلاء کی بدولت بدامنی کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجائیگا جس کو قابو کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا لیکن یہ ہوگا تب جب حکومت قبائلی عوام کو ایک پُر امن معاشرہ کی تشکیل میں مخلص ہو۔ ہمارے خیال میں ہر قبائلی ضلع میں مذکورہ بالا تمام تنازعات اور ان جیسے دیگر تنازعات کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئے اور انتظامیہ اور پولیس کو بجائے ایک دوسرے کے اختیارات کو اپنے تصرف میں لینے کے باہم مل کر کام کرنا چاہئے کیونکہ یہ علاقے فوری، سستے اور دیکھائی دینے والے انصاف کیلئے شدید پیاس رکھتے ہیں اور انہیں مہیا کرنا انتظامیہ اور پولیس دونوں کا فرض بنتا ہے اس میں شاید کسی بہانے یا کسی قانونی نقطے کو پکڑ کر حالات سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

یہاں بھی ایک نظر : ملکقادرخانشہیدکییادیں۔۔تحریراحسانداوڑ

قبائلی علاقوں میں امن امان کی دگرگوں حالت۔۔۔۔ تحریر: احسان داوڑ” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں