پچھلے دنوں بالی ووڈفلم ”گنگاجل”دیکھنے کاموقع ملا پوری فلم دیکھی جسکا پلاٹ پولیس کے ناقص سسٹم اور رشوت خوری کے گرد گھومتا ہے، فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح پولیس کے کرپٹ افسران گاؤں کے ایک بدمعاش کی خوشامد میں لگے رہتے ہیں پھراچانک ہیرو اجے دیوگن کی گاؤں میں ایس پی کے عہدے پر تعیناتی ہوتی ہے اور پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کا قبلہ درست کرنے کیساتھ گاؤں کے بااثر شخصیت جوکہ فلم کے ولن کا کردار آداکرتاہے، کواسکے ساتھیوں سمیت انجام تک پہنچاتاہے۔ فلم کی کہانی میں کچھ کردارایسے بھی ہیں جوپولیس کا لبادہ اووڑھ کرسسٹم کوچیلنج کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح جب تہکال پولیس نے عامر تہکالی کیس میں نہ صرف اس پر تشدد کیا بلکہ اس کی غیراخلاقی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کردی گنگاجل کی کہانی میں کچھ غنڈے حوالات میں پولیس کوگالیاں دیتے ہیں اورعامرتہکالی سوشل میڈیا پر پولیس کیلئے ہتھک آمیز (گالم گلوچ) کے الفاظ استعمال کرتاہے مووی میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس کی وردی میں ملبوس چار پولس اہلکار حوالات میں داخل ہوکر غنڈوں
یہ بھی پڑھئے: مثالی پولیس اور مثالی کارنامہ؟ آفاقیات، تحریر رشید آفاق،
کی پٹائی شروع کردیتے ہیں جن میں سے ایک اہلکار تیزاب کی بوتل لے کر غنڈوں کی آنکھیں پھوڑ دیتاہے جبکہ وائرل شدہ ویڈیو میں بھی پشاور تہکال پولیس کے چار اہلکار بھی عامر کوتھانے میں برہنہ کرکے اس پر تیزاب کی جگہ شراب چھٹرکتے ہیں اور اسے شدید تشدد کانشانہ بھی بناتے ہیں۔ گنگاجل فلم کی کہانی اور تہکال پولیس کی کارستانی میں کچھ زیادہ فرق نہیں دونوں جگہیں پولیس سسٹم اورقانون کی دھجیاں اڑانے والے خود قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکارہی ہوتے ہیںفلم گنگاجل اورحقیقت کی کہانی میں ایک دلچسپ تضادیہ ہے کہ مودی میں پیٹی بند بھائیوں کی کرتوت سے لاعلم ایس پی معطل ہوتا ہے، جبکہ بقول آئی جی خیبرپختونخوا تہکال پولیس کی حرکات سے باخبرایس ایس پی آپریشن کوعہدے سے ہاتھ دھونا پڑتاہے ،،،کچھ عرصہ سے سافٹ ویئر”اپ ڈیٹ”کی اصطلاح بھی عام ہوئی ہے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کامطلب ہرگزیہ نہیں کہ کسی موبائل یا کمپیوٹر کی وینڈو کرپٹ یاخراب ہوئی ہو یا کسی سافٹ ویئرنے کام چھوڑ دیا ہو تو کمپیوٹرانجینئر اسکو اپ ڈیٹ کرکے ٹھیک کردیتا ہے، سافٹ ویئراپ ڈیٹ کی اصطلاح بھی پولیس تھانوں سے نکلی ہے، جہاں کسی ملزم کو پکڑ کر اس کی چھترول کرکے اعترافی بیان یا پھرغلطی کی معافی لے کر ویڈیوبنا دی جاتی ہے، اورپھرسوشل میڈیا پر وائر ل کرکے کہاجاتاہے کہ ملزم کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوگیا!۔۔ سافٹ ویئراپ ڈیٹ کی یہ اصطلاح غالباًایک سال قبل بڈھ بیر میں پولیومہم کیخلاف ایک سرکاری اہلکار کی طرف سے منفی پروپیگنڈا کے بعد سے چلی آرہی ہے جسے پولیس کی حراست میں غلطی کااعتراف کرناپڑاتھا۔فلمی دنیا میں عموماًہم دیکھتے ہیں کہ پولیس واردات کے بعدتاخیر سے پہنچتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں بلکہ ہماری مثالی پولیس واردات سے قبل جائے وقوعہ پرپہنچنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے بشرطیکہ اس کا تعلق پولیس کی ساکھ سے جڑاہواہو ورنہ تو عام شہری کے جان ومال کے تحفظ کیلئے پولیس کے پاس اتنا وقت ہی کہاں!24 سالہ عامر(اصل نام رضیع اللہ) پر پولیس تشدد کے بعد سول سوسائٹی، وکلا، میڈیا، سیاسی جماعتوں سمیت دیگر طبقات میں اسوقت شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے ویڈیووائرل ہونے کے بعد احتجاج اب پر تشدد مظاہروں میں تبدیل ہوچکا ہے تاہم حکومت کی جانب سے جوڈیشری انکوائری کیلئے پشاورہائیکورٹ کو جاری مراسلے کے بعد مظاہروں میں کچھ حد تک کمی آجائے گی ۔ شراب کے نشے میں دھت عامر کے پولیس کیلئے نازیباکلمات کو بھی یقینا اخلاق کے کسی بھی پیرائے میں نہیں تولا جاسکتا اور عامرے نے میڈیا پر آکر اپنی غلطی تسلیم بھی کرلی ہے، ملک کے اہم اداروں اوراس سے جڑے لوگوں کیخلاف گندی زبان استعمال کرنا اخلاقی اورقانونی جرم ہے مگریہ بھی حقیقت ہے کہ” شراب کے نشے سے طاقت کانشہ ”زیادہ خطرناک ہے جسکااستعمال تہکال پولیس کے چند اہلکاروں نے کیا لیکن اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ چار پانچ اہلکاروں کی وجہ سے پورے سسٹم یا ڈیپارٹمنٹ کو قصوروار ٹھہرایا جائے، دہشتگردی کیخلاف پولیس بالخصوص خیبرپختونخواپولیس کی قربانیاں لائق تحسین ہیں، تہکال واقعہ کے بعد ناقدین اورمظاہرین کو بھی اپنے دلوں کو ٹاٹٹولنا پڑے گا، کہ پاک سرزمین کی حفاظت میں بہادری کی داستانیں رقم کرنیوالے شہداء کاخون بھی شامل ہے جنکی وجہ سے آج ہم کھلی فضامیں سانس لے رہے ہیں۔ عامرتہکالی پولیس اورحکومتی حلقوں کیلئے ٹیسٹ کیس بن چکاہے یہی وہ لمحہ ہے کہ ہم اپنے نظام کودرست اور کالی بھیڑوں کو نکال باہر کریں ایسے اقدامات لئے جائیں کہ پولیس کا وقار بلند ہو اورعوام کا فورس پراعتماد بحال ہوجائے، بچوں کے جنسی واقعات کی روک تھام تو ویسے بھی ہم نہ کرسکے، پھر اگر اب سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو پانی سر سے گزرنے میں دیر نہیں لگے گی، جس کی بڑی مثال امریکہ میں سیاہ فام شخص کے پولیس کے ہاتھوں قتل کیخلاف عوامی احتجاج کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
ایک نظر یہاں بھی : نہ جانے یہ پتھر کب موم ہوجائیگا۔۔ تحریر: کاشف عزیز
مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں