ہم آزاد ہیں !!! خصوصی تحریر ۔۔ خالد جان داوڑ

ہمیں پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے بڑوں کا خون شامل ہے اور ہمارے لاکھوں مسلمانوں کے خون سے یہ ملک وجود میں آیا، یہ بات درست ہے یا غلط میرا موضوع یہ نہیں ہے
میں کچھ اور کہنے کی کوشش کرتا ہوں وہ یہ کہ
آپ سب نے باہر بازاروں اور گلیوں میں پاکستان کے بکتے ہوئے سبز ہلالی پرچم دیکھے ہونگے مگر کیا آپ نے یہ پرچم بیچنے والے غریبوں کے چہروں پر دُکھ درد کے وہ آثار محسوس کئے ہیں جن کے ہر درد میں ایک کہانی پوشیدہ ہے ؟
کبھی بچوں کی تعلیم اور دو وقت کی روٹی کیلئے در بدر دھکے کھانے والے باپ کے ہاتھوں میں بکتی ہوئی سبز ہلالی پرچم پر اس کے درد کے آثار دیکھیں ہیں ؟
یقیناً محسوس نہیں کئے ہونگے کیونکہ ہمیں صرف یہ بتایا جاتا ہے اور یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ہم آزاد ہیں ۔
ھم نے اس آزاد ریاست کی ایک بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکا کی جیل میں 80 سال کیلئے قید ہوتا دیکھا ہے،
میں نے اس آزاد ریاست کے خطے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے لاکھوں خواتین بزرگ بوڑھے کیمپوں میں بےیار ومددگار پڑے دیکھے ہیں، معصوم بچوں کو اپنے لاپتہ باباجان کیلئے آنسوؤں بہاتے دیکھے ہیں، لیکن آپ بیشک کہہ دیجئے کہ ”ہم آزاد“ ہیں ۔
میرے دیس کی سڑکوں پر امریکی ریمینڈ ڈیوس اور کرنل جوزف نہتے پاکستانیوں کو اپنی گاڑیوں تلے کچل دیتے ہیں اور ہم انہیں باعزت امریکا بھیجوا دیتے ہیں لیکن آپ بیشک کہے کہ ہم آزاد ہیں ۔
 ستھر سال سے میرے ملک کے حاکم اپنی ذاتی مفادات کیلئے اس ملک کو امریکی چراگاہ بنا کر فیصد ملکی سالمیت کا سودا کردیتے ہیں لیکن آپ بیشک سبز ہلالی پرچم کو گھر کے چھت پر لگا کر کہہ دیجئے کہ ہم آزاد ہیں ۔
ہمیں پڑھایا اور لکھایا یہ جاتا ہے کہ ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کی لیکن پاکستان کے سپریم کورٹ کا جج کراچی کے ایک سیمینار میں فرماتے ہیں پاکستانی عدالتوں میں آج بھی انگریز کے قوانین نافذ ہیں جن کی وجہ سے 30 ، 30 سال کے مقدمات لٹکے ہوئے ہیں۔
میرے دیس میں 74 سال بعد بھی چند ہزار روپوں کی خاطر انصاف بکتا ہے جج بکتے ہیں گواہ بکتے ہیں۔
میرے دیس میں غریبوں کے آزاد بچوں کے ماں باپ ان کی نازک خوشیوں کی خاطر اپنے خواہشات قربان کرتے ہیں جبکہ حکمرانوں اور جرنیلوں کے بچیں یورپ میں ارب پتی بنے پھرتے ہیں۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ایک آزاد فضا میں سانس لیں رہے ہیں لیکن اس آزاد فضاء میں باہر سڑک پر نکل کر حکمرانوں اور جرنیلوں کی غلط پالیسیوں پر تنقید کیجئے تو اگلے لمحے آپ جیل کی فضاؤں میں گھٹن محسوس کرریے ہونگے ۔
سال کے 359 دن آپ ریاستی ظلم و جبر پر گریبان چاک کرتے رہیئے لیکن ایک دن آپ چلایئے کہ ہم آزاد ہیں ۔
کیا یہ وہی آزادی تھی جس کا اقبال نے خواب دیکھا تھا؟
کیا یہی وہ آزادی تھی جس کیلئے ہمارے لاکھوں مسلمانوں نے قربانی دی ؟
اگر آج بھی فرنگی سوچ کے مسند نشینوں کو ہم ووٹ دیکر اپنا حکمران بناتے ہیں ۔
کیا آج بھی میرے منتخب شدہ حکمرانوں کا قبلہ امریکا ہی ہوگا۔؟ کیا آج بھی ہم انگریز کے غلام بن کر زندہ رہنے کو آزادی کہیں گے؟
اپنا خون بہانے والے لاکھوں مسلمانوں نے اپنا خون بہا کر یہی سوچا ہوگا کہ ہم ایک ایسا پاکستان بنانے نکلیں ہیں جہاں مدینے جیسا نظام قائم ہوگا مگر 1947 سے لیکر آج تک ہماری نسلیں انگریز کے جمہوری نظام تلے پیدا ہوئے اور مرگئے پر ہم بلند آواز سے کہیں گے کہ
ہم آزاد ہیں ہم آزاد ہیں ۔

اور ہاں میری طرف سے بھی
جشنِ آزادی بہت بہت مبارک ہو ❤️

خالد جان داوڑ

اپنا تبصرہ بھیجیں