عیاش حکمران اور بھوکی ننگی عوام : تحریر۔۔ مسرت اللہ جان

خیبر پختونخواہ میں تعلیمی ایمرجنسی کے نام پر حکومت میں آنیوالی ” تبدیلی والی سرکار” گذشتہ آٹھ سالوں میں اتنی تبدیلی لیکر آئی ہے کہ کرونا کے باعث تعلیمی سال بند ہونے کے باوجود بھی والدین پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ادائیگیاں کرنے پر مجبور ہیں، صوبہ خیبر پختونخواہ اور قومی اسمبلی میں سپیکر کے عہدو ں پر مسلط ” نام نہاد لیڈروں” کی تعلیمی نیٹ سمیت دیگر سیاسیوں کو مالی منافع پہنچانے کی غرض سے کئے جانیوالے اقدامات سے نہ صرف خیبر پختونخواہ بلکہ پورے ملک میں عوام اور خصوصا تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین اس تبدیلی کو رو رہے ہیں جس کی آڑ لیکر انہیں برباد کیا جارہا ہے ، کیونکہ ایک سال کی پڑھائی نہیں کی گئی نہ ہی سکول کی ٹرانسپورٹ استعمال ہوئی لیکن ان کی ادائیگیوں کے احکامات والدین کو عدالتوں کے ذریعے سے کروانے کی ہدایت دی گئی تاکہ ” ان کالے کرتوتوں والے حرام خوروں” کے پیٹ بھرسکیں. جو انشاء اللہ ازل سے حرص کی وجہ سے خالی تھے اور انشاء اللہ ابد تک ہی خالی رہینگے.

کوئی یہ پوچھنے کی جرات تک نہیں کرسکتا کہ والدین کس کھاتے میں پرائیویٹ سکولوں کو ادائیگیاں کریں ‘ پڑھائی ہوئی نہیں لیکن ادائیگیاں کی جائے ‘ جس طرح حکمران سیکورٹی فراہم نہیں کرسکتے ‘ تعلیم نہیں دے سکتے ‘ روزگار کے مواقع نہیں دے سکتے ‘ صحت کی بنیادی سہولیات فراہم نہیں کرسکتے ‘ لیکن اسمبلیوں میں جانے کے بعد ان پر مسلط ہونیوالے تمام نام نہاد لی ڈر . خواہ ان کا تعلق حکمرانوں سے ہو اپوزیشن سے ہو ‘ ان کی عیاشیوں کیلئے انکے گاڑیوں کے پٹرول کیلئے ‘ انکے ہیلی کاپٹروں میں اڑان کیلئے ‘ ان کی گاڑیوں کے پروٹوکول کیلئے اور ن کی سیکورٹی کیلئے عوام کو ٹیکس بھرنے کی ضرورت ہے خواہ وہ یہ ٹیکس عوام کا چمڑہ نکال کر ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑ جائے انہیں جمع کرنیکی ضرورت ہے . مہنگائی کے سیلاب کے باوجود ملکی حفاظت کے نام پر سیکورٹی کے نام پر اسلحے کی بھرمار .اور میزائل کے تجربوں پر تجربے کس چیز کی غمازی کرتی ہے.
پشتو زبان میں ایک مثل ہے کہ ایک شخص کو دوسرا شخص بے عزت کررہا تھا اور بے عزت ہونیوالے شخص بھی آرام سے مزے بھی لے رہا تھا ‘ کسی نے اس کے جیب میں پستول کو دیکھ لیا اور اس سے پوچھ لیا کہ آخر یہ پستول تم نے کس لئے رکھی ہے جس پر بے عزت ہونیوالے شخص نے جواب دیا کہ “کسی برے دن سے بچنے کیلئے” ‘ جواب سن کر سوال کرنے والے نے اسے کہاکہ ” ابے بے غیرت”اس سے بھی برے دن تم پر آنے ہیں. ا س سے اور کیا برے دن آئیں گے.

تبدیلی کے نام پر مسلط کئے جانیوالے ” ڈرامہ بازوں” کی کارکردگی کا یہ حال ہے کہ انہیں نہ تو ملکی صورتحال کا ادراک ہے نہ ہی تباہ ہونیوالے اداروں کا اندازہ ‘ سوال صرف یہاں پر یہ بھی نہیں کہ موجودہ حکومت صرف اس سارے عمل کی ذمہ دار ہے لیکن ان کو لانے والے ہی اس تمام بدحالی کے ذمہ دار ہیں . خواہ ان کا تعلق کسی بھی ادارے سے ہو ‘ کیا یہ ادارے پہلے سے سوئے ہوئے تھے کہ ان سے پہلے حکمرانوں نے ملک کو لوٹا ‘ کھسوٹا اور نوچتے رہے ‘ سچی بات یہ ہے کہ یہی ادارے جو موجودہ حکمرانوں کو لیکر آئے تھے اس سے پہلے والے حکمرانوں کو ہی لیکر مسلط کروا چکے تھے اس وقت ان کے اپنے ہی مزے تھے اپنے مفادات تھے ‘ ا س وقت الگ طرح کے مفادات تھے آج وقت کے تقاضوں کے مطابق الگ طرح کے مفادات ہیں جو وہ موجودہ حکمرانوں سے پوری کررہے ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس ملک کے نوجوان نسل کو کس طرف دھکیلا جارہا ہے.

ایک زمانے میں رشین فیڈریشن دوسری بڑی سپر پاور تھی تقریبا تیس سال پہلے کی رشین فیڈریشن کے پاس ایٹم بم سے لیکر ایسے آلات ‘ ہتھیار اور چیزیں تھی جس کے بارے میں آج بھی کوئی سوچ نہیں سکتا لیکن ان کے حکمرانوں کو عوام کے حالات کا ادراک تک نہیں تھا . نتیجہ کیا ہوا. آج رشین فیڈریشن تقسیم درتقسیم ہے ‘ ایٹم بم’ بڑی افواج ‘سائنسدانوں کی بھرمار ‘ سیاست دانوںاور ترقی کے باوجود آج رشین فیڈریشن قصہ پارینہ بن چکا ہے کیا رشین فیڈریشن کا حال پاکستان کے حکمرانوں اور انہیں عوام پر مسلط کرنے والے تمام اداروں اور ان کے ذمہ دارں کے آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں.

اگر پھر بھی نہیں تو پھر ” جوکروں پر مشتمل ” حکمرانوں’ انہیں سپورٹ کرنے والے اداروں کو یہ بات یاد رکھنا چاہئیے بقول پشتو مثل کہ” یتم ھسے ھم دا جڑا عادت وی ‘ یا پھر دا مڑی نہ سوک سہ واخلی”یعنی پاکستان کی آدھ مری عوام کو حالات کی خرابی سے اتنا نقصان نہیں ہوگا کیونکہ یہ تو ویسے بھی رونے کے عادی ہیں لیکن ” ایلیٹ کلاس” والے ممی ڈیڈی اور برگرزفیملیوں کو جائے پناہ کہیں پر نہیں ملے گی – اگر یقین نہیں آتا تو تاریخ کا مطالعہ کرلیں کہ جب بھوکی ننگی عوام نکل پڑتی ہے تو انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سامنے کھڑے شخص کے ہاتھ میں بم ہے یا کچھ اور ‘ انہیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ سامنے والا مقدس ہے یا گندا ‘پر وٹوکول میں پھر رہا ہے یا پھر بغیر پروٹوکول کے ‘ انہیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ سامنے والا داڑھی والا ہے یا کلین شیو ‘ سامنے آنیوالے حکمران ہیں یا اپوزیشن ‘ بس وہ اپنی من مانی کرتے ہیں اور خدانخواستہ یہ من مانی کہیں اس صورتحال کوگھمبیرنہ کردے . پھر جھوٹے نعرے بھی کام نہیں آئیں گے کیونکہ ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹتا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں