شمالی وزیرستان میرعلی سب ڈویژن میں زیرکی قبائل کی ذیلی شاخوں میں اراضی کے تنازعے پر ہونے والے فائرنگ سے جہاں قیمتی انسانی جانوں کا ضیا ہورہاہے، وہاں انسانیت کا بھی قتل کیاجارہاہے، انسانیت کے قاتل کوئی اور نہیں، بلکہ خود کو مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ پشتون ہونے کے بھی دعویدار ہیں، ( خانہ جنگی ) اس لفظ کا نام ہم نے افغانستان میں سنا تھا، جو دنیا کے مختلف جنگؤوں نے افغانیوں کو حیوانیت کی طرف دھکیل دیاتھا، مگر ایک ہی گاؤں ایک ہی قبیلےکے مابین خانہ جنگی کو اس وقت دیکھ لیا، جب شمالی وزیرستان میں زیرکی قبائل کی آپسمیں معمولی سی اراضی کے تنازعے نے ایک دوسروں کے خون کے پیاسے بنادئے،
اراضی کے اس تنازعے کو میں معمولی کا نام شائد اس لئے استعمال کر رہا ہوں، کہ انسانی جان سے کچھ بھی قیمتی نہیں، لیکن یہاں ہم دیکھ رہے ہیں، کہ اراضی کا یہ تنازعہ اب آنا کا مسئلہ بن گیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک دوسرےآمنے سامنے گھروں کو بھاری اسلحے سے نشانہ بنارہے ہیں، یہ گھریں خالی نہیں بلکہ اس میں بچے مرد اور خواتین سب محصور ہیں۔
زیرکی قبائل کا ایک دوسرے کے خلاف فائرنگ سے صرف زیرکی ہی نہیں، بلکہ ساتھ دیگر واقع دیہات بھی غیر محفوظ ہیں، جہاں گزشتہ چند روز قبل ایک معصوم بچی بھی شہید ہوگئی ہے، مگر انسانیت کے قتل عام نے ان سب کو بے حس کردیا ہے،
شمالی وزیرستان میں پاک افواج کا ایک مکمل ڈویژن موجود ہے، جس نے دعویٰ کیا ہے، کہ اس نے یہاں امن و امان کے قیام کیلئے ملک کی تاریخ کا سب سے مہنگا ترین اپریشن مکمل کرلیا ہے، وزیرستان کو اسلحہ اور دہشتگردوں سے پاک کردیا، مگر ان کے دعوے سے صاف انکار اس لئے کیا جاسکتا ہے، کیونکہ یہاں تو آج بھی بھاری اور ہلکا اسلحہ استعمال کیاجارہاہے؟؟
پھر یہ اسلحہ اسمان سے اتر گئی؟؟
شمالی وزیرستان پولیس بھی ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر میری طرح تماشائی بن گیا ہے، یہاں امن کے کردار کیلئے آخر کار یوتھ آف وزیرستان اور جمعیت علمااسلام کے جوان نظر آرہے ہیں، جو امن کے سفید جھنڈے ہاتھوں میں لئے زیرکی گاؤں میں داخل ہورہے ہیں، اور زبردستی ان سے مورچے خالی کروا رہے ہیں،
انتظامیہ کی جانب سے شمالی وزیرستان سپین وام کے تحصیلدار حبیب الرحمان بھی یوتھ آف وزیرستان کے صدر نور اسلام کے ہمراہ تھے، نوراسلام کے مطابق 36 گھنٹوں سے مسلسل جاری اس خانہ جنگی پر کنٹرول حاصل کرنا تحصیلدار اور جمعیت علما اسلام کے قاری سمیع الدین کے کردار کے بغیر ممکن نہیں تھا، اس نے یہ بھی بتایا کہ امن کے قیام کیلئے لشکرتیار کرکے مورچے میں جانے کیلئے اس کے ساتھ افرادی قوت کم تھا، پہلے جمعیت علما اسلام کے ساتھ رابطہ کیا، مگر زیرکی قبائل نے ہر کسی کو مایوس اور پریشان کیا ہے، اس لئے اتنی آسانی سے کوئی بھی ماننے کو تیار نہ تھا، نوراسلام کے مطابق قاری سمیع الدین نے اس کارخیر کیلئے کمر کس لیا اور امن کا سفید جھنڈا ہاتھ میں لیکر ان کے ساتھ روانہ ہوا، اور سب سے آگے جانے کا پوزیشن اختیار کرنے لگا۔
زیرکی قبائل کو اللہ پاک ہدایت دیں، جس نے ہاتھوں میں سفید جھنڈے لئے یوتھ آف وزیرستان کے جوانوں اور جمعیت کے کارکنوں کیلئے مورچے خالی کردئے، دونوں جماعت کے جوانوں کو میں یہاں اس لئے داد دونگا، جو گولیوں کی تھڑ تھڑاہٹ راکٹ لانچروں اور مارٹر گولے کی پرواہ کئے بغیر وہ ان کے مورچے کی طرف بڑھ گئے، اور 5 دن تک فائر بندی میں کامیابی حاصل کرلی۔۔
فائر بندی کے بعد مورچوں میں یوتھ آف وزیرستان اور جمعیت کے کارکنوں نے بدستور اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے۔ تاکہ مشتعل قبائل با آسانی دوبارہ ان کے مورچوں پر قبضہ نہ کرسکے۔
اب دیگر قبائلیوں، پولیس اور انتظامیہ کی کوششوں سے یہ فائر بندی مستقل ہوسکتی ہے؟؟
نہیں تو ایک ہی قبیلے کے مابین یہ فائر بندی اور خانہ جنگی ایک بار پھر خونریز تصویر پیش کرسکتی ہے، جس میں قیمتی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ خارج از امکان نہیں کیا جاسکتا۔