طالبان کو نہ چھیڑا جائے تو بہتر رہیگا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ خصوصی تحریر: ناصر داوڑ

تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ اچانک مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی آراء آنا شروع ہو گئیں ۔۔
نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ وہ پہلی شخصیت ہیں ، جنہوں نے حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے عوامی نمائندوں یا قومی اسمبلی کو اعتماد میں لئے بغیر اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا؟؟ ان کا کہنا تھا کہ ایسے مذاکرات انہیں کبھی بھی اور کسی بھی صورت قبول نہیں ، محسن داوڑ تو شروع ہی سے طالبان کے ساتھ مذاکرات یا ان کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہر قسم کا احتساب ہونا ضروری ہے،
تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے اعلان کے فوری بعد آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کے والدین اور ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں نے پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ کسی بھی صورت اپنے جگر گوشوں کے خون پر سودا بازی نہیں کرینگے اور نہ ہی کسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ان کے بچوں کے قاتلوں کو معاف کرے، اس مظاہرے میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شریک تھیں،
قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی عمائدین اور علماء نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات ہی کرنے تھے تو آپریشن ضرب عضب کا مقصد کیا تھا؟؟ عمائدین کا کہنا تھا کہ طالبان کے خاتمے کیلئے ملک کی تاریخ کا سب سے مہنگا ترین آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا اور تاحال اس آپریشن کے متاثرین نہ صرف پاکستان میں دربدری کے عذاب سے گزر رہے ہیں بلکہ ہمسایہ ملک افغانستان میں بھی گزشتہ 7 سالوں سے شمالی وزیرستان کے متاثرین مہاجرین بن کر زندگی کے آیام کاٹ رہے ہیں،
عمائدین کا کہنا ہے کہ میر علی ، میران شاہ اور دتہ خیل سمیت متعدد بازار مکمل ختم ہو گئے، گھر کے گھر اجڑ گئے جبکہ امن کے برعکس بدامنی بڑھ گئی ہے، طالبان اب دوبارہ منظر پر آ گئے ہیں جس سے نہ صرف سرکاری ادارے دباؤ کے شکار ہیں بلکہ عام لوگ بھی طالبانائزیشن کے نئے دور سے پریشان نظر آ رہے ہیں،
سینیئر صحافی سید فخر کاکاخیل نے دی خیبر ٹائمز کو بتایا کہ آپریشن ضرب عضب سے قبل پاکستان عالمی دباؤ کا شکار تھا، جس کے تدارک کی خاطر عالمی برادری کو خوش رکھنے کیلئے طالبان کے خاتمے کے نام پر آپریشنز کئے گئے جبکہ شدت پسندی کے خاتمے کے نام پر ہونے والے آپریشنز کی آڑ میں بڑے پیمانے پر عالمی برادری سے امدادی رقوم اکٹھی کی گئیں۔ ان نام نہاد آپریشنز کے بعد اب ملکی سطح پر امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے دوسری جانب مذاکرات ایسے حالات میں شروع کئے گئے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے جیسے ریاست طالبان سے امن کی بھیک مانگ رہی ہے، ملک میں امن کے قیام کیلئے پاکستانی حکمرانوں نے افغانستان کے وزیر داخلہ اور طالبان کے سپریم کمانڈر سمجھے جانے والے سراج الدین حقانی کے تعاون سے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے، ٹی ٹی پی نے پاکستان کی جانب سے امن مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کیا اور فوری طور پر ایک مہینے کیلئے سیز فائر کا اعلان کر دیا جبکہ طالبان نے پاکستان کی سنجیدگی کو دیکھنے کیلئے 103 طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تاہم ایک مہینے کے دوران پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں اور وفاقی وزراء نے متعدد بار غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ۔۔ تحریک طالبان پاکستانی حکومت اور وفاقی وزراء کے رویوں کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس کر رہی تھی، انہوں نے اس غیر سنجیدہ رویے کے نتیجے میں سیز فائر کے دورانیے کو توسیع نہیں دی اور اپنے کارکنوں کو دوبارہ کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایات دیدیں،
مذاکرات کے عمل سے قبل ہر دوسرے یا تیسرے روز تحریک طالبان پاکستان کہیں نا کہیں کارروائیوں کی ذمے داری قبول کر لیتی تھی جبکہ اب مذاکرات کے خاتمے کے بعد طالبان نے کارروائیاں تیز کر دی ہیں، جہاں اب وہ روزانہ 5 سے 6 کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں،
طالبان کی کارروائیاں تیز ہونے کے حوالے سے پشاور کے سینیئر صحافی نثار محمد خان نے دی خیبر ٹائمز کو بتایا کہ طالبان کے حالیہ حملے حکومت کو پیغام دینے کی ایک کوشش ہے کہ ایک ماہ سیز فائر کو توسیع نہ دینا غلطی طالبان کی نہیں بلکہ حکومت کی ہے جس نے قوم ، پارلیمنٹ یا اے پی ایس کے شہداء کے لواحقین کو اعتماد میں لئے بغیر طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کی،
اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات میں پیدا ہونے والا ڈیڈ لاک کب تک رہیگا؟؟؟ امارت اسلامی افغانستان کے رہنماء پاکستان میں امن و امان کے قیام میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ لیکن اس بحث سے بالا ایک بات طے ہے کہ پاکستان کو اسلامی نظام افغانستان میں اچھا لگتا ہے لیکن خود پاکستان میں جمہوری نظام ۔۔۔۔!!!!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں