تحریر مزمل خان
شمالی وزیرستان جو ایک زرخیز خطہ ہے، یہاں کے لوگوں کا محنت کش قبائل کے نام سے ان کا پہچان ہیں، میدانی علاقوں میں باغات اور پہاڑی علاقے تو ہے ہی سونے کی کانیں، جہاں دنیا کے خوبصورت ترین علاقے اور پیکنک سپارٹ بن سکتے ہیں، شمالی وزیرستان میں ایسے درے ہیں، جو دنیا کے کسی بھی حصے میں ایسے نظارے دیکھنے کو ملنا مشکل ہے، تاہم حکومت کی آنکھوں سے اوجھل ہے، اس لئے یہاں سیاحوں کا آنا ابھی باقی ہے، جس کیلئے وزیرستان کا نیا جنریشن کام کررہی ہے، اور جلد ہی توقع ظاہر کی جاتی ہے، کہ یہاں کے نظاروں سے پاکستان بھر اور غیرملکی سیاحت کیلئے یہاں کے علاقے کھلے جائینگے۔ لیکن فی الوقت یہاں امن امان کے مصنوعی مسائل موجود ہے، یہاں کی خوبصورتی نکھارنے کیلئے شمالی وزیرستان کے پڑھے لکھے داوڑ اور وزیر قبائل کا فورس بننے جارہاہے، جو ہر حال میں یہاں امن امان کے مسائل بھی حل کرنے کی طاقت اپنانے جارہے ہیں۔ اس پر پھر تفصیلی بات ہوگی ، اب ہم آرہے ہین آج کے اصل ٹاپک دریائے ٹوچی کے جانب، شمالی وزیرستان کی دریائے ٹوچی کے دونوں اطراف میں میدانی علاقہ واقع ہے، یہاں کی خوبصورتی کی سب سے بڑی وجہ دریائے ٹوچی ہی کی بدولت ہے،
دریائے ٹوچی کے فوائد کی بات لمبی ہوتی جارہی ہے، لیکن میں آج اتنا بتا دوں کہ دیائے ٹوچی ہے کیا؟
دیائے ٹوچی افغانستان اور شمالی وزیرستان کے جنت نظیر علاقے شوال سے آنے والے پانی مل کر دریائے ٹوچی کہاجاتا ہے، مرعئ اور مستونی سے آنے والی پانی جو افعانستان کے جنوب کی جانب سے بہتی ہے، یہ دونوں بڑے بڑے نہریں دواتویئ کے مقام پر شمالی وزیرستان کی سرحد پر ملتے ہیں، شوال کا جو پانی مل جاتا ہے، اس سے بن جاتا ہے دریائے ٹوچی ۔۔۔۔
دریائے ٹوچی کی لمبائی 200 کلومیٹر ہے۔ شوال اور دتہ خیل کے پہاڑوں سے ہوتا ہوا پانی وادی ٹوچی میں داخل ہوتا ہے، یعنی کژا الگاڈ کے مقام پر ۔
پھر یہاں سے ہوتا ہوا دیگان بازار، بویا تحصیل، محمد خیل، ہمزونی، شمالی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر سمجھے جانے والے میران شاہ ، تپی، عیدک شہر، خدی بازار، حسوخیل میرعلی بازار، اور خیدر خیل سے ہوتا ہوا ضلع بنوں کے راستے مروت کے علاقے میں داخل ہوتا ہے،
مروت کے علاقے میں دریائے ٹوچی کو گھمبیلا کے نام سے پکارتے ہیں پھر ٹوچی یہ گھمبیلا دریا لکی مروت کے علاقے میں دریائے دریائے کرم سے مل جاتے ہیں یہ شمالی وزیرستان کا اہم درہ، دریا، اور وادی ہے۔
وادئ ٹوچی کے بہت سے فوائد ہے ۔مثلا شمالی وزیرستان میں باعات، سبزیاں، دیگر فصلوں میں سے جوار، گندم، گھاس اور ہر قسم کے پھل وعیرہ کی پیداوار دریائے ٹوچی ہی کے ثمرات ہیں، بلکہ شمالی وزیرستان کی خوبصورتی میں بھی ان کا خاص کردار ہے، دریائے ٹوچی کے دونوں اطراف جنت نظیر نظارے دریائے ٹوچی کی بدولت ہے، دن بھر محنت مزدوری کے تھکے ہوئے افراد شام سے قبل دریائے ٹوچی کا رخ کرکے ایک دو گھنٹے یہاں گزار دن بھر کی تھکاؤٹ سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔
تصویر احسان داوڑ نے زیرکی کے مقام پر دریائے ٹوچی میں بنائی ہے، جہاں شام سے قبل یہ نظارے دیکھنے کو ملتی ہے
فوائد کے ساتھ ساتھ دریائے ٹوچی کے کچھ نقصانات بھی موجود ہے۔
مون سوسن کے بارشوں کے دوران دریائے ٹوچی میں طعیانی کی وجہ سے فصل اگانے والی زمین کو شدید نقصان پہنچ رہاہے، اور ہر سال سینکڑوں آراضی سیلابی ریلے کی نذر ہوجاتی ہے، جبکہ دریائے ٹوچی کے آر پار مکانات کو بھی نقصان پہنچ رہے۔ جس کے باعث اچھا خاصہ خاندان کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوجاتا ہے، کاشتکاری کیلئے استعمال ہونے والی اراضی اور مکانات کو بچانے کیلئے یہاں دریائے ٹوچی میں کثیر فنڈز سے پروٹیکشن وال بھی بنائے جاتے ہیں، تاہم ہلکی بارش ہی کے باعث محکمہ ایری گیشن کی ناقص کارکردگی کا پھول کھول دیتی ہے، کیونکہ معمولی پانی کے باعث یہاں کے تمام تر پروٹیکشن وال سربسجود ہوتی ہیں۔ تقریباً ہرسال بھاری فنڈز سے پروٹیکش وال کیلئے کثیر فنڈز مختص کیاجاتا ہے، تاہم محکمہ یا مقامی انتظامیہ کسی من پسند ٹھیکیدار کو خوش کرنے کیلئے اس کے ٹھیکے دیتے ہیں۔ جس کا عام شہریوں ، دریائے ٹوچی کے قریب رہنے یا زرعی اراضی کو محفوظ کرنے کے کام نہیں آتی۔ ہر سال سینکڑو بلکہ ہزاروں کی تعداد میں گھرانے مختلف صورتوں میں دریائے ٹوچی کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں۔ دریائے ٹوچی میں اگر پروٹیکشن وال کو صحیح طریقے سے بنائیں، کام ٹھیک ٹھاک میریٹ پر کی جائیں تو یہاں کے محنت کش زرعی زمینوں باغات اور حتیٰ کہ راہداری روٹ بھی بن سکتاہے۔ جس سے نہ صرف وزیرستان میں خوشحالی کا ضمانت دے سکتی ہے، بلکہ وطن عزیز کی معییشت میں بھی سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے،
مضبوط پروٹیکشن وال کے ساتھ ساتھ حکومت متوازی روڈ یا شاہراہ بھی بنا سکتے ہیں ، جو راہداری روٹ کیلئے استعمال کرسکتے ہیں، جس سے بنوں غلام خان اور دتہ خیل شوال تک اور افغانستان کے صوبہ خوست ، پکتیا اور پکتیکا کے ساتھ انتہائی قریب ہوسکتی ہے، پھر اسی شاہراہوں پر زندگی آسکتی ہے، جہاں چھوٹے چھوٹے بازار پٹرول پمپس، اٹو ورکشاپس، قائم ہوسکتے ہیں، اور اسی سے ایک .بڑے پیمانے پر یہاں عام شہریوں کے روزگار کے مسائل حل ہوسکتے ہیں
یہ بھی پڑھئے: جو وقت کی گردو غبار میں دفن ہو چکا ہے۔ تحریر : احسان داوڑ