وزیرستان یا مسائلستان !! تحریر : مزمل خان داوڑ

 

مزمل خان داوڑ

آپریشن ضرب عضب دریائے ٹوچی کے اطراف میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا نام تھا، جس کے باعث شمالی وزیرستان کی وادی ٹوچی کے میدانی علاقے کے مکین ہجرت پر مجبور کرہوئے۔یہاں کی بیشتر آبادی نے بنوں میں پناہ حاصل کرلی۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ شمالی وزیرستان کے تمام اداروں نے بھی بنوں میں عارضی کام شروع کیا۔ جس میں میرعلی اور میرانشاہ کے نادرا رجسٹریشن سنٹرز کا عملہ بنوں کے نادرا میں ضم کرکےوہاں پر وزیرستان کے آئی ڈی پیز کیلئے سروسز دینا شروع کردی۔ بنوں سے متاثرین کی واپسی اور بہت احتجاج کے بعد میرعلی اور میرانشاہ کے نادرا رجسٹریشن سنٹرز کو ایک کرکے میرعلی میں قائم کردیا گیا۔ حالانکہ شمالی وزیرستان کا ہیڈکوارٹر میرانشاہ ہے، جہاں سب سے پہلے نادرا نے کام شروع کیا تھا، اور یہاں دیگر تحصیلوں کی بنسبت آبادی بھی زیادہ ہے۔ وہاں کی سماجی شخصیت ملک غلام خان مداخیل وزیر کا کہنا ہے کہ حکومت کی غلط پالیسی اور منصوبہ بندی کے باعث سب سے زیادہ آبادی کو نادرا جیسی بنیادی ضرورت سے محروم کردیا۔ نادرا دفاتر جانا ہر شہری کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ اب شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشاہ، تحصیل بویہ دتہ خیل سے ایک سو کلومٹر سے بھی زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ جہاں شہریوں کبھی شناختی کارڈ کبھی برتھ سرٹیفیکیٹ ، تو کبھی نکاح نامہ بنانے کے لئے جانا پڑتاہے جو نہ صرف ان کے لئے تکلیف کا باعث ہے، بلکہ معمولی کام کے سلسلے میں ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، یوتھ آف وزیرستان کے چیئرمین نوراسلام کے مطابق نادرا کی غلط منصوبہ بندی اور غلط فیصلے کو 21 توپوں کی سلامی ہے، آجکل دورجدید میں ملک بھر میں گھر گھر نادرا کی گاڑیاں جاکر خدمات سرانجام دے رہی ہیں، جبکہ یہاں ابھی تک لوگوں کو رسوا کرنا ہی ان کاکام ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور وزیرستان میں بھی نادرا کی موبائل ٹیمیں اپنی خدمات شروع کریں جبکہ میرانشاہ، بویہ اور دتہ خیل گڑیوم اور رزمک کے مقامات پر باقاعدہ اپنی خدمات شروع کریں، انہوں نے دھمکی دی کہ پہلے بھی ہڑتال اور دھرنوں کے بعدحکومت نے یہاں ادارے قائم کئے ، اب مزید مقامات پر اداروں کو فعال کرنے کیلئے بھی تاریخی دھرنوں کا اہتمام کرینگے، لہذا اس سے قبل کہ ہم سڑکوں پر نکل آئیں اداروں کے سربراہان ہماری ضروریات کو سمجھیں، اور وزیرستان کے باسیوں کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھیں۔

یہ بھی پڑھئے : یہ ہود ہے! دی خیبر ٹائمز خصوصی رپورٹ

یوتھ آف وزیرستان کے صدر اسداللہ شاہ کا کہنا تھا کہ یوتھ ہر فورم پر وزیرستانی عوام کےبنیادی انسانی حقوق کی بات کررہی ہے، ایک معممولی کام کیلئے 150کلومٹر سفر کرنابھی انسانی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے، جس کیلئے ہم ہر فورم پر آواز اٹھائینگے، بلکہ اس کے حصول تک ایک مضبوط تحریک چلانے کی بھی اشد ضرورت ہے، جس کیلئے عید کے بعد ایک گرینڈ اجلاس بلایا جائیگا۔ ملک اکبر خان داوڑ نے اس حوالے سے بتایا کہ شمالی وزیرستان میں آباد کاری کے نام پر دعوی محض میڈیا تک محدود ہے اورایک شوشہ ہے، وزیراعظم نے جوں ہی وزارت عظمیٰ کی کرسی براجمان ہوئے ، تو سب سے پہلے انہوں نے موبائل ، اور انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کا اعلان کیا، لیکن وہ بھی محض ڈونرز کے سامنے دکھاوے کے طور پر کیاگیا۔ پورے فاٹا خصوصاً شمالی اور جنوبی وزیرستان میں برائے نام ایک دو ٹاورز کو تصویروں کیلئے بنایا، لیکن ایک ایسی لولی لنگڑی سروس مجال ہے کہ اس پر آپ کال کرسکیں، انٹرنیٹ سروس کی فراہمی اگر میرعلی اور میران شاہ کے کینٹ ایریا میں ہے تو اسے آپ پبلک کا نام نہیں دے سکتے، اور نہ ہی وہاں کوئی پبلک رہتی ہے، اس کو بھی میڈیا پر حکمرانوں نے عوام کا نام دیا ہے، لیکن عوام کے لئے موبائل یا لینڈ لائن پی ٹی سی ایل سروس بھی نہ ہونے کے برابر ہے، شمالی وزیرستان کے عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ حکمران یہاں بنیادی مسائل حل کریں، کیونکہ ایسا کوئی بھی بڑا مطالبہ نہیں ہے، صرف انسانی بنیادی ضروریات ہیں، جس کے بغیر ملک کے دیگر شہری شاید ایک دن بھی زندہ نہ رہ سکیں۔ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیرستان کو اگر مسائلستان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

ایک نظر یہاں بھی : شمالی وزیرستان میں جاری کشت وخون۔۔ احسان داوڑ


ادارے دی خیبرٹائمز کے نمائندے 24 آن لائن رہتے ہیں، کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں 

وزیرستان یا مسائلستان !! تحریر : مزمل خان داوڑ” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں