ہم کالا جادو، کالا بھیڑ، بلیک لسٹ، کالی بلی اور ایسے کئی الفاظ تخلیق کر چکے ہیں جن سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے سیاہ رنگ کو بری نظر سے دیکھا ہے اور اس کے مقابلے میں سفید رنگ کو امن، پاکیزگی اور معصومیت سے جوڑتے ہیں۔ سیاہ رنگ کے ساتھ یہ امتیازی سلوک شاید آپ کو برا نہ لگے کیونکہ یہ رنگ ہی تو ہے، رنگوں میں اپنی حیثیت سمجھنے کے لئے اگر سیاہ رنگ میں جان ہوتی تو یقینا احتجاج کرنے پر اتر آتا، اور کاش،،، یہ قصے کہانیاں رنگوں کی حد تک محدود ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے، کیونکہ بشری اور مساوی حقوق کادرس دینے والا امریکہ خود جہالت کے ادوار سے گزرا ہے اور سیاہ رنگ کو نسل پرستی کا رنگ دینے میں بھی امریکہ کا نام سر فہرست ہے۔
زمانہ قدیم میں امریکہ نےکانوں میں کام کرنے، کھیتی باڑی ، مشقت،محنت مزدوری اور سخت کام کم پیسوں میں کروانے کے لیے براعظم افریقہ سے مدد مانگی، وہاں سے انسانوں کو خرید کر غلامی کا ادارہ بنایا۔ کہتے ہیں کہ امریکہ افریقہ کے لاکھوں سیاہ رنگ کے باشندوں کو غلام بنا چکا تھا اور جب یہ تعداد بھی امریکہ کو بنانے میں کم پڑ گئی تو ان کیلئے عارضی بیویاں بھی افریقہ سے لائی گئیں۔ ان سے کم وقت میں زیادہ کام لینا، جانوروں جیسا سلوک کرنا، مارنا پیٹنا سفید نسل امریکیوں کا معمول تھا۔ عیسائی کلچر میں سیاہ رنگ رکھنے والے کو گنہگار، ظالم اور برائی کی علامت سمجھا جاتا تھا، اور چونکہ افریقیوں کا رنگ بھی سیاہ تھا تو اس لئے وہ بھی اس امتیازی سلوک کا شکار ہوگئے، اور پھر جب امریکی افریقہ میں داخل ہوئے تو جغرافیہ، وسائل کی مساوی تقسیم، کسی نسل کی تاریخ کی وجہ سے تعصب کے علاوہ رنگ سے بے جا نفرت بھی جدید دور کی نسل پرستی کا سبب بن گیا۔
افریقہ کے غلاموں اور ان کے آقاوں کے درمیان درجہ بندی تو رہی، لیکن سیاہ رنگ سے نفرت کرنے پر شاید امریکیوں نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ اس سوچ کے اثرات سینکڑوں سال بعد بھی ختم نہیں ہوں گے۔
نسل پرستی کو جنم دینے والا صرف امریکہ ہی نہں بلکہ یونان کے معروف فلسفی ارسطوکے حوالے سے بھی کچھ مورخین لکھتے ہیں کہ انہوں نے غلامی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’فطرت کی جانب سے کچھ لوگوں کو اس لئے غلام بنایا جاتا ہے تا کہ وہ یونانیوں کی خدمت کر سکیں‘ یقینا اس جملے میں صرف غلامی کا دفاع نہیں بلکہ یونانیوں کو دیگر لوگوں سے برتر سمجھا گیا ہے۔
خیر رنگ کی بنیا د پر نسل پرستی پھیلانے والوں نے جو کرنا تھا وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ کہتے ہیں ’حال سمجھنے کیلئے ماضی دیکھنا ضروری ہے ‘ اب سوال یہ ہےکہ دنیا ممالک ،اقوام بالخصوص ہم اپنے ماضی سے کتنا سبق سیکھ چکے ہیں، کیا آج بھی کسی ملک میں کسی کو رنگ کی وجہ سے کمتر یا برتر نہیں سمجھا جاتا؟ کیا اکثر اوقات گورا ہونے کی وجہ سے تعلیم یافتہ نہیں سمجھا جاتا؟ کیا ہماری سیاسی جماعتیں نسل پرستی کو فروغ نہیں دے رہیں؟ کیا ہمارے وسائل مساوی بنیادوں پر تقسیم ہیں اور اس پر کسی بھی گروہ کو اعتراض نہیں ہے؟ کیا ہمارے ملک کے صوبوں کے درمیان تعصب نہیں ہے؟ اگر آپ ان سوالوں کی نفی نہیں کر سکتے تو یقینا ہم ماضی سے سیکھ چکے ہیں۔لیکن افسوس ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ذہنوں پر نسل پرستی کا بھوت سوار ہے اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس کو مزید ہوا دی جارہی ہے جو ہمیں پستی کی جانب لے جارہی ہے۔
Load/Hide Comments