شدت پسندوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کا اپریشن ضرب عضب کے دوران بنوں، لکی مروت، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان میں عارضی مقیم متاثرین کے مسائل و مشکلات دنیاں تک پہنچانے کی کوشش کے دوران لاچار بے بس اور غریب لوگوں کو راشن یا دیگر مراعات ملنے پر ان کی چہروں پر مسکراہٹ کو دیکھ کرھم بھی خوش ہوجاتےتھے،،،،، مگر مالدار، کروڑ پتی، لاکھ پتی، لینڈ لاڈز افراد کو لائینوں میں کھڑے ہوکر دیکھنے پر افسردہ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہی لمحات تھے، کہ میں لائنوں میں کھڑے ان کی طرف دیکھنا تو دور کی بات دل خون کے آنسوں رونے لگتا تھا ۔ ۔ ۔ اور یقیناً میری زندگی میں یہ لمحات سب سے تکلیف دہ اور سوچنے والے لمحات تھے۔۔۔
آپریشن کے بعد واپسی ہوئی ۔۔۔۔ علاقے میں ایک یا دو سال تک مثالی امن ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد یکسر دوبارہ ایسی بدامنی بم دھماکوں ٹارگٹ کلنگ کا عمل کہ شائد اپریشن ضرب عضب سے قبل والے لمحات بھی شرمانے لگے ہو۔۔۔۔
اس دوران بدامنی ،ایک دوسرے کی بے عزتی ، ایک دوسرے بلکہ عزیز و اقارب پر الزامات ، ناجائز ایک دوسروں کے زمینوں پر قبضے، ایک دوسرے کے خلاف چاکوں چُھریوں اور کلہاڑیوں کا استعمال، سرعام قانون کو ہاتھ میں لینے کے واقعات میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔
ماضی حال مستقل پر بہت کچھ لکھنے کا کئی بار ارادہ کیا، مگر اس دوران سوشل میڈیا کے مجاہدین بھی فعال، فیک آئی ڈیز کے معلوم اور نامعلوم افراد کی بھی کمی نہ تھی، تب اس صورت حال میں چُپ ہونے اور خاموشی و باریک بینی کیساتھ حالات پر فقط نظر ہی رکھنے میں عافیت سمجھنے لگا۔ ۔ ۔ ۔
تاہم کل ہی کی بات ہے، جب اکتوبر کے آخری عشرے میں وزیرستان کے سفر کے دوران دیکھا کہ قبائلیوں کے مابین زمینی تنازعات پر تلخیاں ۔۔۔۔ جگہ جگہ مختلف اقوام نے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ روٹ کو بند کیا ہوا تھا، جس سے عوام کو سخت مشکلات پیش آنے کے ساتھ ساتھ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیوں کی بھی لمبی قطاریں نظر آرہے تھے، جس کے باعث پاک افغان تاجری برادری بھی شدید مشکلات سے دو چار ہیں۔
ضلعی انتظامیہ اور پولیس بھی بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے، جبکہ لوگوں کی آپسمیں اراضی کے تنازعات سے سیکورٹی فورسز بھی لاتعلقی ظاہر کررہی ہے، سب سے بڑھکر عوام کے روئیوں میں بدلاؤ نفسا نفسی نے میری پریشانی اور بھی بڑھادی ۔
آپریشن ضرب عضب کے دوران راشن کے حصول کیلئے لائینوں میں کھڑا ہونے ، این جی اوز و سرکاری مراعات کے پیچھے پاگلوں کی طرح دیوانہ وار گھومنے والی قوم میں تباہ کن تبدیلیاں رونما ہوئی ہے ۔ بیشتر لوگوں میں شرم و حیاء، دریا دلی ، دوسروں کی عزت کا نہ ہونا، ہر کسی میں خودی کم ہوئی یا شائد اگر مکمل خاتمہ بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔۔۔۔۔
اپریشن کے بعد گاؤں واپسی پر ہرگھر ، گلی، گاؤں میں ایک دوسرے کی جانب سے پانچ فٹ زمین پر بھی قبضہ جمانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے دفاتر میں روزانہ اتنی شکایات جمع ہوتے ہیں ، کہ یہاں دفاتر میں فائلوں کے انبار لگے نظر آرہے ہیں۔
اگر ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا صوبے بھر کے تمام پولیس اور پشتون جرگہ آراکین بھی وزیرستان بُلایا جائے؟ تب بھی ان تنازعات کا حل ممکن نہیں، بلکہ اور بھی بڑھنے کا خدشہ ہے۔
آپریشن کے بعد کبھی غیرت مند سمجھےجانے والے ان قبائلیوں کے روئیوں میں اس حد تک تبدیلی آئی ہے، کہ یہاں ہر کوئی حریص بن گیا ہے، بھوک کا خوف، ایک دوسرے پر اعتمام کا شدید بحران، بڑھتا ہوا لالچ جس کا علاج کسی سرکار یا ڈاکٹر کے پاس نہیں بلکہ،
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضاء کیاہے؟