پاکستان میں موسم تیزی سے بدل رہا ہے، اور اس کے اثرات زندگی کے ہر پہلو پر نمایاں ہیں۔ بڑھتی گرمی، بے وقت بارشیں، دھوئیں سے بھری فضا اور خشک ہوائیں اب روزمرہ کا حصہ بن چکی ہیں۔ کبھی بارش کے بعد مٹی کی خوشبو دل کو سکون دیتی تھی، اب جلی ہوئی تاروں اور گرد کی بو سانسوں میں گھل گئی ہے۔
گھروں میں بزرگ اکثر کھانستے ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں ! “پھیپھڑے تھک گئے ہیں، ہوا میں گرد ہے، خون میں گرمی بڑھ گئی ہے۔” یہ جملہ اب کسی ایک مریض کی نہیں، پوری قوم کی کیفیت بیان کرتا ہے، لاہور، کراچی اور فیصل آباد جیسے شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں میں سانس اور الرجی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کہیں بے موسم بارشیں، کہیں خشک سالی، کہیں تیز آندھیاں ۔۔۔ فطرت جیسے اپنی ناراضگی کا اعلان کر رہی ہو، امرود کے درخت اب پھل نہیں دیتے، گاؤں بارشوں میں بہہ جاتے ہیں، شہری پلاسٹک کے شیڈ میں دبک کر سانس لیتے ہیں۔
بچے اپنی دعاؤں میں کھانسی سے نجات مانگتے ہیں، بارش جو کبھی رحمت تھی، اب خوف کی علامت بن گئی ہے، بارش ہوتے ہی سڑکیں بند، اسکول ویران، دیواروں سے پانی رسنے لگتا ہے، اور زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔
شمالی علاقوں میں برف تیزی سے پگھل رہی ہے،، ماہرین کے مطابق اگر یہی رفتار برقرار رہی تو آئندہ دہائیوں میں کئی گلیشیئر مکمل طور پر ختم ہو سکتے ہیں، یہ تبدیلی صرف پہاڑوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ میدانی علاقوں میں سیلابوں کی شکل میں ظاہر ہو رہی ہے۔
چائے کے کھوکھوں پر لوگ مستقبل، تعلیم اور انصاف پر گفتگو کرتے ہیں، مگر ان کی آنکھوں میں بے یقینی جھلکتی ہے، شدید گرمی میں پسینے سے تر چہرے اور تھکے وجود ایک ہی سوال کرتے ہیں: “کب بدلے گا یہ حال؟”
پھر بھی کچھ لوگ امید کا دامن نہیں چھوڑتے، کوئی تلسی اور نیم کے پودے لگا رہا ہے، کوئی اپنے حصے کا درخت بچا رہا ہے، یہ چھوٹے اقدامات دراصل بڑی مزاحمت ہیں ،، زندگی اور فطرت کے حق میں۔
ماحولیاتی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ پاکستان کو اب فوری طور پر ماحولیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد شروع کرنا ہوگا، گلیشیئرز کے پگھلنے، زمینی درجہ حرارت میں اضافے، اور فضائی آلودگی میں شدت سے زراعت، صحت، اور معیشت سب متاثر ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر شائستہ خان ، ماحولیاتی سائنس دان، کہتی ہیں: “ہمیں سمجھنا ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلی اب مستقبل کا خطرہ نہیں، موجودہ حقیقت ہے۔ اگر آج ہم نے قدم نہ اٹھائے تو آنے والے سالوں میں سانس لینا بھی عیاشی بن جائے گا۔”
پروفیسر تیمور خان (جامعہ پشاور) کے مطابق: “درخت لگانا اب شوق نہیں، ضرورت ہے۔ حکومت کے ساتھ عوامی سطح پر بھی سبز مہمات کو فروغ دینا ہوگا۔” ورنہ تاہی ہمارے مقدر کا حصہ ہے، اور شائد آنے والے نسلیں ہمیں معاف کریں؟؟
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات بدلیں، پلاسٹک کے استعمال میں کمی، توانائی کی بچت، درخت لگانا، پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال، اور صنعتی فضلے پر قابو — یہ وہ بنیادی اقدامات ہیں جو نہ صرف ماحول بلکہ انسانی زندگی بچا سکتے ہیں۔
دنیا کی آلودہ ترین فضاؤں کی عالمی فہرست میں ہمارے وطن کا نام اُن انسانوں کی بے احتیاطیوں اور غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں اور رویوں کے باعث نمایاں طور پر ابھرا ہے۔”
یوں اب ہم کہہ سکتے ہیں، کہ ہوا واقعی بدل گئی ہے، مگر شاید ابھی دیر نہیں ہوئی،،،، اگر ہم سنجیدگی سے فطرت کے ساتھ اپنا رشتہ دوبارہ جوڑ لیں، تو یہ زمین ہمیں ایک اور موقع ضرور دے گی۔
مہویش تسلیم: نوجوان لکھاری، ماحولیاتی و سماجی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ “تحریر انسان کے ضمیر کی آواز ہے، اور زمین اس آواز کی پہلی مخاطب۔
”
رابطہ:moonkhan86@gmail.com