مدت سے لاپتہ ھے خدا جانے کیا ہوگا…!

تحریر ۔۔ مشاھد باچا
ریاست کو ماں کہتے ہیں کیونکہ ماں کا دل سمندر سے گہرا اور آسمانوں سے زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ ماں اولاد سے نفرت نہیں کر سکتی، ماں پیار ہی پیار ہے، غلطیاں معاف بھی کرتی ہے اور غلطیوں کے باوجود سینے سے بھی لگاتی ہے۔

ماں بلکتے بچے کو دیکھ کر تڑپ جاتی ہے تو تکلیف میں دیکھ کر ایک پاؤں کھڑی ہو جاتی ہے۔ ریاست کو ماں سے اس لیے تشبیہ دی جاتی ہے کہ ریاست گندے، میلے، روتے بسورتے بچوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔

ریاست مجموعہ ہے ہرادارے کا

‏بلوچوں اور پشتونوں کو آغوا کرنا اور انکو عدالت میں پیش نہ کرنا ایک سنگین ترین مسئلہ ھے اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ھےاگر ملک وخدت پاکستان کو مستحکم رکھنا ہے تو اظہار آزادی پر لگے پیرے ختم کرنا ہوگا پارلیمنٹ کو با اختیار اور قوموں کے حق حاکمیت کو تسلیم کرنا ہوگا.
‏ہمارے بلوچ اور پشتون بھائی بہن کے ان آنسووں سے اگر عرش کو کچھ نہیں ہوگا مگر یہ آنسو ایک دن فرش پر موجود خاکی خداوں کے تخت و عرش ضرور ملیا میٹ کریں گی

یونیورسٹی کے ایک بلوچ دوست نے مجھے کہا کہ ہمارے گاؤں میں ‏اب کوئی بھی بلوچ اپنےبچوں کو تعلیم حاصل کرنےنہیں دے رہے ہیں کیونکہ جس بلوچ نے تعلیم حاصل کیا ہے، انہیں لاپتہ کردیا گیا ھے، ان میں سےاکثریت کی مسخ شدہ لاشیں گرائے گئی ہیں اور باقی ابھی تک لاپتہ ہیں، یہ نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہیں یامار دیا گیا ؟؟
یہاں ہر وقت قانون کی پامالی ہوتی ھے ‏قانون کہتا ہے کہ اگر کسی مجرم کو جرم کی بناء پر اٹھایا جائے، تو انہیں ایک دن کے اندر اندر مجرم کو عدالت میں پیش کریں؟ لیکن یہاں تو دس سال بعد بھی مجرم کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا،
اگر کوئی رہاہوگیا ہے، تو ان میں اکثر زہنی معزور یا پاگل ہوتے ہیں،

بھٹو اپنے کتاب میں لکھتے ہیں جب سابقہ چیف منسٹر عطااللہ مینگل کا بیٹا اسداللہ مینگل اغوا ہوا تو میں اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف ٹیکہ خان اور ضیاالحق ( نئے منتخب کردہ ) سے دریافت کیا کہ اسداللہ مینگل کدھر ہیں ؟؟ تو انہوں نے جواب دیا ہمیں کُچھ پتہ نہیں، اسرار کرنے پر کہا کہ اسے پچھلی رات ٹھٹہ سندھ میں مار دیا گیا ہے۔ جب پوچھا گیا کہ لاش کدھر ہے تو کہا گیا کہ ہمیں پتہ نہیں، کس طرح آپ کو پتہ نہیں تو کہنے لگے بس آپ انہیں بتا دیجیے کہ اسداللہ مینگل افغانستان بھاگ گیا ہے۔
بھٹو لکھتے ہیں کہ اگر اس وقت میں ان جنرلوں کا کھڑا احتساب کرتا، تو آج شاید میں جیل میں نا سڑ رہا ہوتا اور نہ کوئی بےگناہ آغوا ہوتا __
ریاست کی جانب آغوا کئ ہوئے بلوچوں اور پشتونوں نے اگر غلط کیا ہے تو اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے، ان پہ بغیر جرم کے اٹیک کرنا قابلِ سزا جرم ہے اور اس جرم کی اس کو قانونی سزا ملنی چاہیے۔ اس کے غلط اقدام کو آپ غیر قانونی سزا دے کے خود کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں؟ اور آپ خودٍ بے گناہ آغوا کئے گئے بلوچ اور پشتون کو بغاوت پر اکسا رہے ہوں
کسی کو غائب کرنا کسی بھی مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں، اگر یہ انسوں ہم نے نہیں پونچھے تو اوپر والا پونچھ لے گا مگر اس کے ساتھ ہی اس کی پکڑ بھی زبردست ھوگی؟ کیونکہ اللہ میاں کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

اسلئے ‏پاکستان میں پشتونوں اور بلوچوں کی سیاسی اتحاد کی شدید ضرورت ہے، دونوں محکوم قوموں کو مل کر ریاستی جبر، استحصال اور ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا چاہیے، ریاست دونوں کو تقسیم کر کے ان پر ظلم اور ان کے استحصال کرنا بند کریں اور انکی احساس کمتری دور کیا جائے

یہ بھی پڑھئے: باچاخان بابا کے تعلیمات ہمارے نصابوں میں کیوں نہیں……؟ تحریر مشاہد باچا


کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مدت سے لاپتہ ھے خدا جانے کیا ہوگا…!” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں