تحریر: حسام داوڑ
دہشتگردی جہاں عالمی سطح پر ایک وبا بن کر آئی دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی مادی، نفسیاتی اور معاشی ساختیں ہلا کر دی تو وہیں پر معاشرتی اور ادبی پہلو بھی دہشتگردی کی وبا سے بچ نا سکی۔ جنگ اور بدامنی کی پچھلی دو دہائیوں سے خاص طور پر قائم اور مستقل فضا میں دنیا کے مختلف اقوام، ثقافتوں اور ادب نے سانسیں لی۔ دہشتگردی سے زہر الود فضا میں سانس لینی والی ان اقوام، ثقافتوں اور آداب میں ایک پشتو اور وزیرستان بھی ہیں جوکہ اس قائم شدہ دہشتگردی کا گڑ رہ گئی۔ یہاں کی ثقافت اور رہن سہن ایک طرف تو دوسری طرف یہاں کی پیدا شدہ ادب کو بھی دہشتگردی اور جنگ و جدل نے پچھلی صدی کے ادب کے مقابل متاثر کیا۔
وزیرستان جو کہ پچھلی صدی میں ایک پر امن اور پر سکون خطہ رہا وہاں کی ادب میں بھی اسی سکون اور جماؤ کی رنگ واضح ہیں۔ یہاں نے فن کار اور ادیبوں نے پچھلی صدی میں عام و خاص محبت، پر امیدی، ترقی پسندی اور اپنی ثقافت کی ترویج وغیرہ جیسے موضوعات کو اپنایا۔ یہاں کے لکھاریوں اور گویوں نے معاشرے کا مسائل کو ایک ایک مزاحیہ اور طنزیہ انداز میں تنقید کا نشانہ بنا کر معاشرے کے سامنے لانے کی کوشش کی اور اسی طرح پچھلی صدی میں وزیرستان کے ادیبوں نے محبت اور محبوب کے نخروں اور نزاکتوں کو موضوع قلم و قول بنا کر اپنایا۔ ان سب کی بڑی وجہ یہاں کی امن اور خوشحالی تھی۔ تاہم یہ صورتحال کلاشنکوف کلچر کے فروغ کے بعد تبدیل ہوتے رہیں۔اسی طرح پشتون لکھاریوں نے بھی صورتحال کی تخلیقی و تھذیبی پیشکش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔۔اس حوالے سے ہماری شاعری بڑی ثروت مند ہوگئ۔نئی لفظیات نیے استعارے نئے امیجز اور نئے پیرائے ہماری شاعری خصوصاً غزل کا حصہ بنے۔پشتو ادب میں ایک تبدیلی جو رونما ہوئی وہ یہ کہ اس سے قبل تو مخصوص نظریاتی لکھاری ہی پشتون طرز احساس کی روشنی میں لکھ رہے تھے۔ جبکہ
نائن الیون کے بعد جو دھشت گردانہ ماحول بنا، اس میں دیگر نکات نظر کے لوگ بھی پشتون طرز شعور اور طرز فکر کے مطابق لکھنے لگے اور یوں ایک نسبتاً وسیع تر پشتون تناظر سامنے آگیا۔دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پشتون مزاحمتی بیانیہ مزید وسعت پذیر ہوگیا۔
9/11 کے واقعے کے بعد وزیرستان کا یہ خطہ دہشتگردی کی نظر ہوا اور دہشتگردی یہاں اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگی تو یہاں کی ادب بھی اپنا رنگ اور ذائقہ بدلتی رہی۔ دہشتگردی نے وزیرستان کے ادب کا موضوع، لہجہ، لفظوں کا انتخاب اور مقصود کے اعتبار سے پچھلی صدی کے ادب سے یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ظاہر یے نقصان کو بہت پہہنچایا ہے۔۔ ایک عدم استحکام کی فضا ہے جس نے لکھنے والے سوچنے والے ذھنوں میں بے یقینی خوف بےچینی اور عدم تحفظ کے خدشات پیدا کردیے ہیں۔۔ہماری ثقافت کا ڈھانچہ کسی حد تک متاثر ہوگیا ہے۔۔ہمارے لوگ ایک بڑی سطح پر ہجرت کے ہولناک تجربے سے گزرے ۔۔ گھر بار مال مویشی رشتے ناتے کاروبار غمی شادی سب کچھ متاثر بلکہ بڑی حد تک منتشر ہوگیا ۔
اسی طرح ہمارے شعر و ادب میں بھی
ایک یکسانیت اگئی۔۔۔ لکھنے والے درد و غم کا ہی اظہار کرنے لگے۔۔ایک” خونم خون اور لہولہان جمالیات” وجود میں ا گئی ۔
البتہ بعض ادیب اس کیفیت کو مثبت پہلو سے دیکھتے ہیں ۔ اس حوالے سے پشتون تھنکرز فورم کے بانی جاوید احساس سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے اسی دھشت گردانہ صورتحال نے ہمارے اندرپشتون طرز احساس پیدا کردیا ہے۔۔ فورم کے مطابق اسی صورتحال نے ہمارے اندر پشتون وژن پشتون مشن کے ساتھ چیزوں کو دیکھنے کا جزبہ احساس اور فکر پیدا کردی ہے۔ اب ہمارا نکتہ نظر وہ نہیں رہا جو کبھی پہلے تھا۔۔ اب لوگوں نے اس حقیقت کو قبول کرلیا ہے کہ حالات تبدیل ہوگیے ہیں۔ اب ہم نے ایک ایک چیز کو گہرائ سے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ مطلب دھشت گردانہ صورتحال نے ہمارے اندر ایک قومی سماجی و سیاسی و تاریخی شعور پیدا کردیا ہے وزیرستان کے شعراء اور ادیبوں نے اکیسویں صدی میں اپنے موضوعات پچھلی صدی کے مقابل یکسر تبدیل کر دئے ہیں۔ اب یہاں کے شاعر اور لکھاری اگر قلم سے کچھ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی پہلی ترجیحی موضوع یہاں کی دہشتگردی سے بنی ہوئی تباہی اور مظالم ہی ہوتے ہیں۔ جس طرح پہلے ذکر کیا گیا کہ یہ شعراء پرانے زمانے میں محبوب اور محبت کے موضوع پر زیادہ لکھا کرتے تھے۔ اب جس طرح گیلامان وزیر اپنے نظم میں کہتے ہیں کہ میں کس طرح اپنے محبوب کی قصدہ گوئی کروں جہاں پر میرے علاقے کے بازار اور گھر مسمار پڑے ہوئے ہیں۔ میں کیسے اپنی محبوبہ کو شاعری کی زینت بناؤں جہاں پر میرے علاقے کی باپردہ خواتین حیموں میں بے سرو سامانی کی زندگی گزار رہیں ہیں۔ یہ خیالات اور موضوع صرف گیلامن وزیر کی شاعری تک محدود نہیں بلکہ سوخیل ظہیر بھی کچھ ایسا لکھتے ہیں:
زړۀ مې غلبیل دے د حالاتو د ستم د لاسه
شمارلے نه شم پرهارونه پۀ دې ړنګ کلي کښې
سوخیل ظہیر اپنی کتاب “دہ ماتم چغہ” میں وزیرستان کے زبوں حالی، بربادی، اور آپریشن کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کے احوال شاعری کی زبان میں بیان کرتے ہیں۔ میں اپکو بتاتا چلوں کہ جنگ کی یہ موضوع وزیرستان کے ادیبوں کی ایک طرح کی مجبوری بن گئیں کیونکہ معاشرہ اور یہاں کا عام آدمی بھی شاعر اور لکھاری سے اس بات کی درخواست کرتا ہے کہ وہ ان حالات کے ستم کو لفظوں کی لڑی میں پرویے۔
جنگ اور تباہی کے موضوع کے ساتھ یہاں کے لکھاریوں نے اپنی لکھائی میں مزاحمت کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ یہاں کہ شعراء چاہے مجبور داوڑ دیگان ہو، سوخیل ظہیر ہو، رفیق اللہ رفیق ہو، یا پھر محب وزیر ہوں سب نے اپنی لکھائی میں دہشتگردی مزاحمت کی ہیں اور سب نے اس بات کو مطلوب بنایا ہے کہ کس طرح آنے والی نسلوں کو جنگ اور بربادی کے سیاہ اندھیروں سے نکال کھینچ کر ایک نئی اور روشن زندگی کی طرف لے آئیں۔
اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں مختلف متاثرہ اضلاع کے لکھنے والوں کے ہاں بندوق اور تیر وتلوار پر مبنی خیالات و جذبات کی تکرار بھی جاری رہی، تاہم بعد میں بندوق اور اسلحہ سے ایک مستقل بیزاری بھی پیدا ہوگئ اور اب لکھنے والے امن اور زندگی کے حق اور جنگ و بندوق کے خلاف قلم بدست اور کمربستہ ہیں۔
وزیرستان کے ادیبوں کا مزاحمت کا یہ موضوع وزیرستان کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کی کوشش ہیں۔ یہاں کے ادب نگاروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جنگ اور بربادی سے خود کو علم کے رستے نکال کر ایک نئی مستقبل تلاش کریں، تو کبھی انکو بزور دست و بازو اس دہشتگردی جیسے لعنت کو مزاحمت پیش کرنے کی کوشش کی ہیں۔
ظاہر ہے کہ جنگ اور مزاحمت کا یہ انداز خاصے خوشگوار انداز میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے اس پہلو کا ذکر ضروری ہے کہ دہشتگردی نے وزیرستان کے ادیبوں کے قلم سے خوشی، عاجزی اور محبت کا لہجہ چھین کر ایک غمگین، دردناک اور غصیلہ لہجے سے نوازش کیا۔ اس لئے ہر شاعر اور لکھاری نے ہمیشہ جنگ کی مذمت اور مزاحمت سخت لہجے میں کی ہیں۔
دہشتگردی کے اس مزاحمت میں ادیبوں کے لئے یہ مشکل نہیں بلکہ میرے خیال میں ناممکن ہیں کہ وہ برائی اور بدی کو سلیقہ مند زبان اور الفاظ کے ساتھ بیان کریں۔ یہاں کے ادب نویسوں نے سخت اور غضب ناک لہجے اور الفاظ کے انتخاب کے ساتھ جنگ کی مزاحمت کی۔ یہ بات کہنا ضروری ہے کہ لفظوں کا یہ انتخاب اور لہجہ وزیرستان کی پچھلی صدی کی لکھائی میں نہیں ملتیں کیونکہ اس وقت ان سب حالات کا سامنا ان کو نہیں کرنا پڑا تھا۔
اپنی موضوع، لہجہ اور لفظوں کے انتخاب کی بلا اس سے اور کیا مقصد ہوسکتیں ہیں کہ وزیرستان اپنی کھوئی ہوئی پہچان اور ساکھ کو پا سکیں۔ دہشتگردی نے یہاں کا ادب اور ثقافت دونوں برباد کئے ہوئے ہیں اور ان دونوں کا دفاع کرنا لکھاریوں کی زمہ داری ہے۔ وزیرستان کی ثقافت کو مخفوظ کرنے اور اپنی پہچان کو ثبت کرنے کے لیے احسان داوڑ کی شائع شدہ کتاب “وزیرستان کا ثقافتی ورثہ” جو کہ ایک نثر کی صورت میں لکھا گیا ہے، اپنی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے وزیرستان کے گزرے کل جو سمیٹا ہے اور یہ جدو جہد کی ہے کہ ان سارے خوبصورت رویات، رسوم و رواجات اور ثقافت کو لکھے گئے انداز میں اگلی نسل تک پہنچائیں، جو کہ جنگ اور دہشتگردی کی نذر ہوگئیں۔
عرض یہ ہے کہ دہشتگردی نے وزیرستان کے ادب چاہے وہ شاعری ہو، یا پھر نثر سب ہر ایک گہرا اثر ڈالا ہے اور یہاں کے شعراء اور ادب نگار اس جہاں میں اپنی لکھائی کی بل بوتے پر ایک الگ مقام اور پہچان بنانا چاہتے ہیں، اور دنیا کو وزیرستان کا ایک مثبت پہلو دکھانا چاہتے ہیں۔