دو روز قبل ادویات بنانے والی امریکہ کی ایک معروف کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ جولائی کے مہینہ میں کرونا وائرس کی ویکسین کا تیسرا اور حتمی ٹرائل کر رہی ہے۔ جس میں تیس ہزار رضاکار حصہ لیں گے۔ یعنی تیس ہزار افراد پر اس ویکسین کے اثرات کو ٹیسٹ کیا جائے گا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ میں کسی ویکسین کے حتمی ٹرائل کا مرحلہ اس قدر جلد آ پہنچا ہے۔
امریکہ میں نئی بیماریوں خصوصا وبائی امراض کے لیے ویکسین کی تیاری اور اسے عوام کو دستیاب ہونے میں عام طور پر اسے ایک سے ڈھائی سال تک کا عرصہ لگتا ہے۔ کسی نئے مرض کے پھوٹنے کے بعد سب سے پہلے اس کے جرثومے کی حیاتیاتی ساخت کا تفصیلی مطالعہ کیا جاتا ہے اور لیباٹریاں دن رات اس وائرس کی خصوصیات اور ساخت کا گہرائی میں تجزیہ کرتی ہیں۔ جس کے بعد اس کے توڑ یا ویکسین کی تیاری شروع کی جاتی ہے۔ مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ آئیڈیاز اور تجربات کیے جاتے ہیں جن میں چند ہفتوں سے چند ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ جب سائنسدان کسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں اور کسی ویکسین کا فارمولا تیار کر لیتے ہیں۔ تو اس کی اطلاع صحت عامہ کے محکموں اور حکومتی اداروں کو دی جاتی ہے۔
سب سے پہلے کسی بھی ویکسین کو جانوروں پر آزمایا جاتا ہے اور اس تجربہ کے نتائج اور اس کے مختلف پہلووں سے متعلقہ محکموں کو بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔ جانوروں پر تجربات کے نتائج اگر حسب توقع آئیں تو اس کے بعد نئی ویکسین کو چند درجن افراد پر آزمایا جاتا ہے مگر اس سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ نئی ویکسین ان افراد کے لیے محفوظ ہو۔ رضاکاروں کے پہلے اور چھوٹے گروپ کو نئی ویکسین دینے کے بعد کئی ہفتوں یا مہینوں تک ان پر ویکسین کے اثرات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ کئی نئی ویکسینز پہلے ہی مرحلہ میں ناکام ہوتی ہیں جبکہ چند ایک متوقع نتائج دیتی ہیں۔ جس کے بعد وہ ویکسین جو چند درجن رضاکاروں کے جسم میں نئی بیماری کے وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرتی ہے۔ اس ویکسین کو اگلے مرحلہ میں زیادہ لوگوں پر آزمایا جاتا ہے۔ نئے رضاکاروں کی تعداد دو سو سے تین سو کے درمیان ہوتی ہے۔ ان رضاکاروں پر ویکسین کے اثرات کا مشاہدہ کئی ہفتوں تک کیا جاتا ہے اور اگر مطلوبہ نتائج حاصل ہو جائیں یعنی ویکسین رضاکاروں پر کوئی منفی اثر پیدا کیے بغیر بیماری کے خلاف ان میں قوت مدافعت پیدا کر دے تو پھر اسی ویکسین کو ہزاروں رضاکاروں پر آزمایا جاتا ہے۔ اور اس تجربہ کے دوران اگر یہ ویکسین محفوظ ثابت ہو اور انسانی جسم میں نئی بیماری کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کر دے تو پھر ان تمام ٹرائلز کے نتائج اور سائنسدانوں کی رائے سے حکومتی اداروں کو باخبر کیا جاتا ہے۔ حکومتی ماہرین کمیٹیاں یا بورڈز اس ویکسین کے ٹرائلز کے نتائج کا بہت باریک بینی اور احتیاط سے جائزہ لیتے ہیں۔ جس کے بعد ویکسین کو محفوظ قرار دے کے منظور کر لیا جاتا ہے۔
اگلے مرحلے میں ادویات کی کمپنیاں اس ویکسین کی تیاری شروع کر دیتی ہیں۔ یہ سارا عمل کافی طویل ہے۔ یہی وجہ کہ ویکسین کی تیاری، منظوری اور دستیابی پر دو سے ڈھائی سال عرصہ لگتا ہے۔ یہ طریقہ کار امریکہ کا ہے۔ دوسرے ممالک میں ایسے ہی طریقہ کار ہیں۔ گو کہ بعض ممالک میں ویکسین کی تیاری، منظوری اور دستیابی میں امریکہ کے مقابلہ میں کم وقت لگ سکتا ہے۔
کرونا وائرس وہ پہلی وبائی بیماری ہے جس کی ویکسین کے حتمی ٹرائل کا مرحلہ امریکہ میں صرف چھ ماہ میں آن پہنچا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ امریکی حکومت نومبر 2020 میں صدارتی انتخابات سے پہلے کرونا کی ویکسین مارکیٹ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے اگرچہ ماہرین صحت کے خیال میں جنوری فروری 2021 سے پہلے ویکسین کا مارکیٹ میں آنا مشکل ہے۔تاہم ویکسین کی جلد دستیابی کی وجہ صرف امریکی صدارت انتخاب ہی نہیں بلکہ چین بھی ہے۔
کرونا وائرس چونکہ چین میں پھوٹا اس لیے اس وبائی مرض کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات چین کے پاس ہیں۔ چین امریکہ اور دیگر ممالک سے پہلے کرونا کے بارے میں جانتا تھا۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں کا الزام ہے کہ چین نے کرونا وائرس کے حوالہ سے تمام یا مکمل معلومات دیگر ممالک اور ڈبلیو ایچ او کو فراہم نہیں کی ہیں۔ معلومات کی عدم فراہمی کی وجہ سے امریکہ اور اس کے حلیفوں کا خیال ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین کی تیاری میں چین کو دوسرے ممالک سے سبقت حاصل ہے۔ برطانیہ اور دیگر ممالک میں بھی کرونا وائرس کی ویکسین کے ٹرائلز جاری ہیں۔ لیکن چین میں کیا ہو رہا ہے اس متعلق زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: مزید لاپرواہی کا نتیجہ موت کا رقص … شیراز پراچہ
گذشتہ دنوں چین نے اعلان کیا تھا کہ وہ کرونا وائرس کی ویکسین کو دنیا کے دوسرے ممالک کو فراہم کرے گا اور اس طرح انسانیت کی خدمت کی جائے گی۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ چین یہ ویکسین اپنے دوستوں اور حلیفوں کو مفت دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ امریکہ کی دواساز کمپنیوں کے لیے ایک تاریک سپنا ہو گا۔ امریکی حکومت نہیں چاہے گی کہ چین دنیا بھر میں امریکہ سے پہلے مفت ویکسین تقسیم کر کے امریکہ کو مات دے دے۔ یہ چین کی بہت بڑی سفارتی فتح ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس حلیفوں کی جانب سے چین پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔ اور اس سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ کرونا کے حوالہ سے تمام معلومات دنیا سے شئیر کرے۔
چین کے علاوہ روس میں بھی ویکسین کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔ چین اور روس اب حلیف ہیں۔ یقینا دونوں کے مابین کرونا وائرس کی ویکسین کے حوالہ سے معلومات کا تبادلہ بھی ہو رہا ہو گا۔ اور یہ دونوں ممالک اپنے حلقہ اثر کو بڑھانے کے لیے کرونا ویکسین اپنے دوستوں اور حلیفوں جس میں پاکستان بھی شامل ہے کو دے سکتے ہیں۔
پاکستان میں ناکام حکومتی حکمت عملی، عوام کی لاپرواہی اور قابل اعتماد ڈیٹا کی عدم دستیابی کے باعث کرونا وائرس بے قابو ہو چکا ہے۔ ایسے میں چینی ویکسین ہماری واحد امید ثابت ہو سکتی ہ۔ لیکن امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ممالک کی کوشش ہو گی کہ چین ویکسین تیار اور فراہم مہ کر پائے۔ وہ چین کو روکنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف چین اور روس امریکہ کو ناکام بنانا چاہیں گے۔ یوں کرونا وائرس کی عالمی وبا نے عالمی سطح پر تعاون اور یک جہتی کی بجائے ایک نئی دوڑ یا ویکسین وار چھیڑ دی ہے۔ جو بس پردہ جاری ہے۔ جس کی زد میں ڈبلیو ایچ او بھی آ چکا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: جہالت اور لاعلمی کی دیواریں….! شیراز پراچہ