آج سے دو ھفتے پہلے تک ۔مجھے خوش فہمی تھی کہ میں ایک ایسا لکھاری ھوں جو دوسروں کو دلیل کے زریعے قائل یا متاثر کر سکتا ھے، مجھے یہ بھی زعم تھا کہ میں ایک کامیاب استاد اور مبلغ ھوں جس کی بات طلباء اور ساتھی دونوں غور سے سنتے اور اس پر عمل بھی کرتے ھیں مگر یہ ساری خوش فہمی اور زعم اس وقت دور ھو گیا جب گذشتہ بارہ سال سے میرے ساتھ رھنے اور میرے لیئے کام کرنے والے ان پڑھ ارباز خان (سٹوری میں اصل نام کی جگہہ فرضی نام ارباز خان استعمال کیا جارھا ھے) نے مجھے غلط قرار دیتے ھوئے میرا مشورہ اور ھدایت ماننے سے انکار کردیا-
ارباز خان نے میرے والدین کی خدمت کی ھے- 2009 میں میرے والد نے ارباز کے ھاتھوں میں زندگی کی آخری سانسیں لی تھیں، میری والدہ بھی اسے ایک بیٹے کی طرح چاھتی تھیں کیونکہ ارباز نے میری والدہ کی خدمت اپنی ماں کی طرح کی- اگست 2017 میں, ارباز اور میں دو ھفتے اسلام آباد کے ایک ھسپتال میں میری امی کے بستر کے گرد گھومتے رھے یہاں تک کہ وہ وینٹی لیٹر پر ہی وفات پا گئیں اور ھم دونوں انکی میت لے کر اکھٹے گھر آئے- امی کے جانے کے بعد گذشتہ تین سال سے ارباز میرے گھر کی ہر چیز کا خیال رکھتا ھے- وہ میرا بھی خیال رکھتا ھے, میرے کھانے پینے اور لباس کی فکر کرتا ھے- جب میں باہر نکلتا ھوں تو وہ میرے ھمراہ چلتا ھے- میں جب بھی لکھتا ھوں تو ارباز کو پشتو زبان میں ترجمہ کر کے سناتا ھوں، انثر نیٹ سے حاصل ھونے والی معلومات بھی میں اس کے ساتھ شیئر کرتا ھوں- کورونا وائرس کے پیھلاؤ کے بعد ارباز اور میں کم ہی گھر سے باہر نکلتے ھیں-
ارباز کے دو بہت پیارے بچے ھیں اور اسکی بیوی بڑی سلیقہ شعار اور محبت کرنے والی خاتون اور ایک زمہ دار ماں ھے- کورونا کی وباء پھوٹنے کے بعد میرے اصرار کے باوجود ارباز کی فیملی میرے گھر شفٹ نہیں ھوئی اور انہوں نے اپنے گھر پر ہی رھنا پسند کیا-کورونا وائرس پھیلنے کے بعد میں نے ارباز کو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے سے منع کردیا اور اسے ایک بائسیکل خرید کر دے دی تاکہ وہ محفوظ طریقے سے اپنے گھر آجا سکے- اسی طرح مں نے اسے ماسک استعمال کرنے کی بھی تلقین کی اور اس نے ماسک استعمال کرنا شروع کیا جسے وہ ہر دوسرے روز تبدیل بھی کرتا ھے- وہ اپنی جیب میں ھینڈ سینٹائزر بھی رکھتا ھے اور باہر میل ملاپ میں سماجی فاصلہ بھی برقرار رکھتا ھے- ارباز کرنسی نوٹوں کو بھی احتیاط سے چھوتا ھے- کسی سے ھاتھ ملاتا ھے نہ ہی گلے ملتا ھے- اس کے بیوی بچے بھی اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتے ھیں- ان احتیاطی تدابیر کی وجہ سے ارباز کے عزیز و اقارب اور اسکے اھل محلہ اسکا مذاق اڑاتے ھیں- کئی رشتہ دار اس فیملی سے ناراض ھوچکے ھیں- ایک مرتبہ ارباز جب میرے گھر کی بجلی کا بل جمع کروانے کے لیئے گیا تو وھاں موجود ایک بزرگ نے اسے کہا کہ اپ ڈرتے ھو, یہ بیماری جھوٹ ھے- اس بزرگ نے اپنی عمر کا فائدہ اٹھاتے ھوئے زبردستی ارباز کا ماسک اتروانے کی بھی کوشش کی-
گذشتہ تین مہینے سے میں ہر شام ارباز کو پاکستان بھر میں کورونا وائرس کی صورتحال کے بارے میں بتاتا ھوں اور آسان زبان میں اسے اس بیماری کے حوالے سے سمجھاتا ھوں، یہ بھی بتاتا ھوں کہ دنیا کے دیگر ممالک کیسے اور کس قدر متاثر ھورھے ھیں یوں ارباز کرونا وائرس کے خطرے اور تباہ کاریوں سے اگاہ ھے-
ارباز خان کے چار بھائی ھیں انکی والدہ وفات با چکی ھیں مگر ستر سالہ والد حیات ھیں جو کافی بیمار ھیں- انکے والد باری باری تمام بھائیوں کے گھر ایک ایک مہینہ گزارتے ھیں- دس دن پہلے ارباز کے والد ارباز کی باری آنے ہر اسکے گھر منتقل ھوئے- کورونا وائرس کی وباء پھیلنے کے بعد یہ ارباز کے گھر انکی پہلی منتقلی تھی- ارباز کے والد کی انکے گھر آمد کا سن کر میں نے ارباز کو مزید احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ھدایت کی تاکہ اسکے بوڑھے والد کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے- ارباز اور اسکی بیگم نے میری ھدایات پر سختی سے عمل کرنا شروع کردیا تاھم ارباز کے گھر اپنی آمد کے تیسرے دن ارباز کے والد غسل خانے میں پاؤں پھسلنے سے گر پڑے اور انکے کولہے کی ھڈی ٹوٹ گئی- ارباز اسوقت گھر پر موجود نہیں تھا لیکن ارباز کی زمہہ دار بیوی نے اپنی بھابھی کی مدد سے اپنے سسر کو اٹھایا اور پھر یہ دونوں خواتین انہیں ھسپتال لے گئیں جہاں سے انہیں ایک اور کلینک بھیجا گیا- سخت تکلیف میں مبتلاء ایک بوڑھے مریض جس کی کولہے کی ھڈی ٹوٹی ھوئی تھی وہ دن بھر ھسپتال۔،کلینکس اور مختلف لیبارثریوں میں گھومتا رہا- شام کے قریب دونوں خواتین ارباز خان کے والد کو لیکر واپس گھر لوٹیں-
مجھےاس حادٹے کا علم اگلے دن ھوا جب ارباز ڈیوٹی پر آیا ظاہر ھے مجھے سخت صدمہ پہنچا لیکن ساتھ ہی یہ بھی فکر ھوئی کہ چونکہ ارباز کے والد ھسپتال اور لیبارثریوں میں گھمائے جاتے رھے اس لیئے اس عمر رسیدہ اور دل و گردوں کے مریض شخص کو کورونا وائرس منتقل نہ ھو گیا ھو- میں نے ارباز کو مشورہ دیا کہ حفظ ماتقدم کے طور پر وہ اپنے والد کا کورونا ٹسٹ کروا لے- اس مقصد کے لیئے میں نے قریبی ھسپتال کے ڈاکٹر صاحب سے بات کی اور انہیں پوری صورتحال بتائی- ڈاکٹر صاحب نے میری رائے سے اتفاق کیا اور کہا کہ ایک میڈیکل ٹیم ارباز کے گھر جاکر اسکے والد اور گھر کے دوسرے افراد کے کورنا ٹسٹ لے گی- جب میں نے اسکی اطلاع ارباز کو دی تو اس نے کہا ثھیک ھے اور شکریہ بھی ادا کیا-
دو گھنٹے بعد ارباز نے مجھے فون کرکے بتایا کہ اس کے بھائی گھر کے دیگر افراد اور رشتہ دار کورونا ٹسٹ کے مخالف ھیں- ان تمام لوگوں کا کہنا تھا کہ ارباز کے والد ٹھیک ھیں, وہ ٹسٹ نہیں کروائیں گے- کورونا جھوٹ اور ایک ڈرامہ ھے اور اسکا مقصد ارباز کے والد کو جان سے مارنا ھے- میں نے فون پر ارباز کے رشتہ داروں کو قائل کرنے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رھا- اگلے روز جب ارباز آیا تو اس نے بتایا کہ اس کے بھائی والد کو ارباز کے گھر سے اٹھا کر لے گئے ھیں- یہ تمام کورونا کو ایک جھوٹ قرار دیتے ھیں اور انہون نے کورونا ٹسٹ کے مسلے پر ارباز کے ساتھ جینا مرنا چھوڑ دیا ھے اور تمام رشتے ختم کر دیئے ھیں- ارباز بے حد پریشان اور رنجیدہ تھا میں نے اسے تسلی دی کہ اس نے اپنے والد کی صحت اور خاندان کے تحفظ کے لیئے ایک اقدام اٹھایا تھا جس کو اس کے خاندان والوں نے ناکام بنا دیا- میں نے ارباز کو یہ کہا کہ چونکہ وہ اور اسکی بیوی انکے والد کو لیکر دو روز تک ھسپتالوں میں گھومتے رھے ھیں لحذا اگر وہ چاھیں تو انہیں بھی احتیاط” کورونا ٹیسٹ کروا لینا چاھیئے- میں نے اسے پیشکش کی کہ میں ان کے ساتھ اپنا کورونا ٹیسٹ کسی پرائیویٹ لیبارٹری سے کروا لونگا وہ خاموش رھا-
اگلے دن جب میں نے ارباز سےکورونا ٹسٹ سے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا ” صاحب..! میں ٹسٹ نہیں کرواؤنگا ، ٹسٹ کی وجہ سے میرا پورا خاندان بدنام ھو جائیگا، ھمارے گھر پولیس اور فوج کا پہرا لگ جائیگا، ھمیں گھر میں بند کردیا جائیگا، پھر ھسپتال لے جائینگے جہاں ھمیں کورونا وائرس کا کہہ کر جان سے مار دیا جائیگا، لوگ ھمارے خاندان سے نفرت کرئینگے ،ھمارے جنازوں میں کوئی نہیں آئے گا ، نہیں صاحب ! ھم مر جائجنگے مگر کورونا ٹسٹ نہیں کروائینگے ” ارباز نے کہا بے شک آپ مجھے ملاشمت سے نکال دیں لیکن میں نے یہ ٹسٹ نہیں کروانا ھے- ارباب کی آنکھوں میں عزم اور چہرے پر سختی تھی- وہ ھماری بارہ سالہ رفاقت کو توڑنے پر تلا ھوا تھا- ،گذشتہ کئی مہینے سے میں نے اسے جو سمجھایا اوربیماری کے بار آگاہ کرنے کی کوشیشی کی تھیں وہ ۔پل بھر میں رائیگاں چلی گئیں جسکی وجہ اس غریب اور ان پڑھ شخص پر بھائیوں ، عزیزوں ،رشتہ داروں اور اھل محلہ کا دباؤ تھا-
کورونا وائرس کے حوالے سے ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ھے کہ مریض بیمار ھوتے ھوئے بھی یہ جانتے ھوئے بھی کہ وہ مر سکتے ھیں, انکی فیملی انکے پیارے جان سے جا سکتے ھیں کورونا ٹسث کروانے کے لیئے تیار نہیں -حکومت اور اس کی صحت کی خدمات, ھسپتال عوام کا اعتماد جیتنے میں ناکام ہیں- مجھے محسوس ھوا کہ جہالت جیت گئی، لاعلمی جیت گئی ، اس کے بعد میں کیا لکھوں اور کیا بولوں جب میں اپنے قریب ترین شخص کو بھی قائل نہ کر سکا-
“جہالت اور لاعلمی کی دیواریں۔۔۔۔! تحریر : شیراز پراچہ” ایک تبصرہ