خیبر پختونخوا پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے اور عوام کے ساتھ اچھا رویہ رکھنے کے لئے صوبائی حکومت نے مختلف تربیتی ورکشاپ, سیمینار اور کورسز کروائے جن کا مقصد عوام کے دلوں میں پولیس کے لئے جگہ بنانا تھا. ان منصوبوں پر صوبائی حکومت, کے پی پولیس اور غیر سرکاری اداروں نے کروڑوں روپے خرچ کئے لیکن عوام کہتے ہیں کہ پولیس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی.
چند دن قبل پشاور کے علاقے تہکال سے تعلق رکھنے والے نوجوان نے نشے کی حالت میں پولیس کو گالیاں دیں اور وڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی جو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی, اس پر مثالی پولیس فوری حرکت میں آئی جس نے چند ہی گھنٹوں میں اسے گرفتار کرکے بے تحاشا تشدد کیا, نوجوان نے بڑی معافیاں مانگیں جس کی وڈیو بھی بنائی گئی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی گئی.
اس واقعے کے بعد ہنگو سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی جاوید مصطفی لکھتے ہیں کہ “میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ آخر وڈیو بنانے اور وائرل کرنے کی پولیس کو ضرورت ہی کیوں پیش آئی، لیکن لوگوں کو یہ ویڈیو بہت پسند آئی اور وڈیو کو “سافٹ ویئر اپ ڈیٹڈ” کیپشن دے کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا گیا اور پولیس کو شاباش دی گئی، یہ ہوتی ہے جہالت صرف پولیس کی نہیں بلکہ عوام کی بھی”۔
اگلے ہی دن پشاور کے علاقے رشید گڑھی سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی سافٹ ویئر سے قبل اور بعد کی وڈیو وائرل ہوئی اور یوں سوشل میڈیا پر ہر ایک اپنے انداز میں پوسٹ کرتا رہا. بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ تہکال کے نوجوان کی ایک اور ویڈیو بھی سامنے آ گئی جس میں پولیس نے نوجوان کو برہنہ کر کے تشدد کیا اور یہ وڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل کر دی، تب لوگوں کو ہوش آیا اور اس پر طرح طرح کے کیپشنز دیئے گئے, کسی نے لکھا پولیس سزا اور جزا دینے والی ہوتی کون ہے؟ کسی کا کہنا تھا انصاف فراہم کرنا تو عدالتوں کا کام ہے اور کسی نے اس واقعے کو کرنل کی بیوی کے واقعے سے منسلک کر کے پولیس کو طعنے دیئے لیکن وڈیو پھر بھی وائرل ہوئی.
جاوید مصطفی لکھتے ہیں “پولیس کی جانب سے وڈیو بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی تھانوں میں عوام پر تشدد کر کے وڈیوز وائرل کی گئیں، آپ ٹریفک پولیس کی ہی مثال لے لیں جو نہ صرف غریب ڈرائیوروں کی غلطی پر انہیں چلان کرتے ہیں بلکہ ان کی وڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں اور پھر اس ڈرائیور کے ماں باپ بہن بھائی اور سب رشتہ دار دیکھتے ہیں کہ اسے ٹریفک پولیس نے کتنا ذلیل کیا لیکن لوگ ایسی وڈیوز کو پسند کرتے ہیں اور پولیس کو داد بھی دیتے ہیں حالانکہ قانون میں یہ سزا کہیں نہیں لکھی ہے۔
غلطی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جو جی میں آئے سزا دے دی جائے بلکہ قانون نے جو سزا مقرر کی ہے وہی مناسب اور درست ہے۔ کسی کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنے پر خوش ہونے والوں کو آج نہ صرف پولیس کی بلکہ اپنی جہالت کا بھی اندازہ ہوا ہوگا”.
وڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بنیں تو وزیر اعلی محمود خان نے ان کا سخت نوٹس لیا اور آئی جی پی کو واقعے میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو فوری معطل کرنے اور گرفتار کرنے کا حکم دیا اور واقعے کی انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ۔ سی ایم نے کہا کہ متاثرہ شہری کو پورا انصاف دیا جائیگا اور واقعے میں جو بھی ملوث پایا گیا اسے سخت سزا دی جائیگی.
اس حوالے سے انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی نے اس گھناؤنے فعل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو فوری طور پر معطل کر کے گرفتار کرنے کا حکم دیا. چیف کیپٹل سٹی پولیس پشاور کو وڈیوز کی مکمل تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ جلد از جلد پیش کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں، اس اہم کیس میں ہر قیمت پر انصاف کی جلد از جلد فراہمی کو یقینی بنایا جائیگا۔
ان احکامات کے بعد وڈیو نمبر چھ سامنے آئی جس میں تہکال نوجوان کو مزید تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پولیس پوچھ رہی ہے کہ بتاؤ,”تمہاری بہن کے ساتھ کس کس نے زنا کیا ہے,ایک ایک کا نام بتاؤ”.
ان وڈیوز کے وائرل ہونے کے بعد سوشل ایکٹیوسٹس, تہکال اور صوبے کے دیگر حصوں سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر وڈیو اپ لوڈ کی اور پولیس کے رویےکو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احتجاج کی کال دی.
ان واقعات کے بعد یہ معلوم ہو گیا کہ حکومت, محکمہ پولیس اور مختلف اداروں کی جانب سے پولیس ریفارم پر لگائی گئی رقم اور وقت دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام اب ہر خبر سے باخبر رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اس واقعے کے بعد پولیس سے نفرت کی شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے لیکن کیا سوشل میڈیا کے ذریعے اب مظلوموں کو انصاف بھی مل سکے گا ؟؟ یہ تو وقت ہی بتائیگا …
3 تبصرے “نہ جانے یہ پتھر کب موم ہوجائیگا۔۔ تحریر: کاشف عزیز”