خیبر پختونخوا میں درختوں کا قتل عام, کمشنر کا ایکشن


وزیراعظم عمران خان کو جنگلات سے اتنا پیار ہے کہ 2013ء میں جب خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو حکومت ملی تو خان صاحب نے سب سے پہلا نعرہ سونامی بلین ٹری منصوبے کا لگایا ، اس وقت ان کا فوکس خیبر پختونخوا پر بہت زیادہ تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 2013ء میں ہی صوبے میں ایک ارب درخت لگانے کا اعلان کیا ، اس وقت کے وزیر اعلی پرویز خٹک اور وزیر جنگلات اشتیاق ارمڑ نے دن رات ایک کر کے سونامی بلین ٹری منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے منصوبے پر کام شروع کیا ، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب بھی عمران خان پشاور آتے تو سب سے پہلے سونامی بلین ٹری منصوبے کے بارے میں وزیر اعلی پرویز خٹک سے بریفنگ لیا کرتے ، افتتاحی تقاریب میں ، میں بھی رپورٹر کی حیثیت سے شریک رہا ، سوات ، بنوں ، کالام سمیت دیگر اضلاع میں عمران خان سونامی بلین ٹری منصوبوں کے افتتاح میں بھرپور شرکت کیا کرتے ، کروڑوں اربوں روپے اس منصوبے پر آج تک لگائے جا چکے ہیں اور مزید خطیر رقم بھی منصوبے کے تحت لگ رہی ہے ، مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے جب محکمہ پولیس کو سدھارنے کے لئے پنجاب سے ناصر درانی جیسے آفیسر کو آئی جی کے عہدے پر تعینات کیا گیا ویسے ہی خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے مسائل حل کرنے کے لئے ایک انتہائی قابل آفیسر ریاض محسود کو بطور ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا اور انہیں مکمل اختیارات بھی پرویز خٹک نے دیئے ، ریاض محسود وہ شخصیت ہیں جنہوں نے پشاور میں 2 ارب روپے سے زائد کی سرکاری اراضی مافیا سے واگزار کرائی, انہیں 2015ء میں اورکزئی اور کرم ایجنسی میں پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے فرائض کی بہترین انجام دہی پر ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا جبکہ سیکرٹری ایکسائز تعیناتی کے عرصے میں صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹارگٹ سے 10 فیصد زائد ریکوری کرنے کا سہرا بھیانہی کے سر ہے.. پھولوں کے شہر پشاور میں عرصہ دراز سے تجاوزات کا مسئلہ درپیش تھا ، تو اس وقت کے قبائلی سپوت ریاض محسود نے پشاور کو تجاوزات سے پاک کرنے کا بیڑا اٹھایا ، یوں پشاور میں ڈے نائٹ آپریشن کئے گئے کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ ڈی سی پشاور ریاض محسود نے دو ارب سے زائد کی سرکاری املاک قبضہ مافیا سے چھڑائیں ، پشاور کے بازاروں جہاں سے گزرنا بھی محال تھا وہاں ٹریفک کی آمدورفت شروع ہو گئی ، شہریوں نے سکھ کا سانس اس وقت لیا جب 1980ء کے بعد 2015ء میں پشاور کی اصل شکل دکھائی دی ، پھر ریاض محسود کو محکمہ ایکسائز کا سیکرٹری اور اضافی چارج کے ساتھ ہلال فوڈ سیفٹی اتھارٹی کا ڈی جی مقرر کیا گیا تو محکمہ ایکسائز میں موجود اہلکاروں و افسروں کی اس وقت دوڑیں لگ گئیں جب ریاض محسود نے ایک ہفتے کے اندر اندر اپنوں پرایوں میں بانٹی گئی گاڑیاں واپس لینے کے احکامات دیئے ہزاروں گاڑیاں راتوں رات محکمے کو واپس ملیں ، یہ بتانا بھی ضروری سمجھوں گا کہ تاریخ میں پہلی بار محکمہ ایکسائز کے اہلکار و افسران کو وردی پہننے کا بھی پابند کیا گیا اور ساتھ میں ایک نئی فورس تشکیل دی گئی جو پولیس کی طرح دن رات گشت کرتی رہتی ، محکمہ ایکسائز کے پراپرٹی ٹیکس شعبے نے ریکارڈ ریکوری کرکے حکومتی خزانے میں کروڑوں روپے جمع کروائے ، ساتھ ساتھ اس دبنگ افسر نے حکومت کی جانب سے بنائی گئی ہلال فوڈ سیفٹی اتھارٹی کا ڈائریکٹر جنرل ہونے کے ناطے پشاور سمیت صوبہ بھر میں مہنگی اشیائے خوردونوش اور ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ، ایسے ایسے مافیا کو بے نقاب کیا گیا جو سالہا سال سے عوام کو ناقص اشیائے خوردونوش فروخت کرکے بیماریوں میں مبتلا کر رہے تھے اور انہیں پابند سلاسل کرتے ہوئے لاکھوں کے جرمانے بھی وصول کئے ، 2018ء تک اس نڈر افسر نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پشاور کے لئے ایسا کام کیا کہ اسکا نام کی مثالیں دی جاتی ہیں ، آج یہ افسر کمشنر ملاکنڈ ڈویژن تعینات ہے، جہاں وہ کسی کی پرواہ کیے بغیر کام کر رہا ہے ، میرے خیال سے آج کسی کی جرأت نہیں کہ نان کسٹم پیڈ گاڑی ملاکنڈ کے کسی بھی علاقے میں یا خفیہ راستوں سے گزار سکے تو دوسری جانب آج کل ریاض محسود ٹمبر مافیا کے خلاف بھی ایکشن میں ہیں ، یقینا اس وقت بھی ان کو وزیر اعلی محمود خان اور موجودہ چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز کی بھرپور حمایت حاصل ہے حال ہی میں وہ خفیہ طور پر اکیلے کالام گئے اور کالام اور اس کے گردونواح کا جائزہ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ درختوں کی کٹائی زور وشور سے جاری ہے تو انہوں نے وزیراعلی محمود خان اور چیف سیکرٹری سے ملاقات کی اور انہیں تمام تر صورتحال سے آگاہ کیا ، جس پر دونوں نے انہیں فری ہینڈ دیتے ہوئے کارروائی کا حکم صادر کیا ،اور انہوں نے فوری طور پر محکمہ جنگلات کے 25 سے زائد افسران و اہلکاروں کو معطل کرکے تحقیقات شروع کر دیں ، وزیر جنگلات اشتیاق ارمڑ جن پر وزیراعظم عمران خان نے اندھا یقین کیا اور اہم محکمہ پچھلی اور موجودہ حکومت میں انہیں سونپے رکھا شاید وہ بھی اس ایشو پر مکمل خاموش تھے اور اب تو رہیں گے کیونکہ ان کے نوٹس میں ہونے کے باوجود آج تک وزیر موصوف نے کوئی کارروائی نہیں کی ، ہزارہ میں کچھ عرصہ قبل جب ایک جنگل میں آگ لگی تو اشتیاق ارمڑ صاحب نے کہا کہ شدید گرمی کی وجہ سے جنگل میں آگ لگی ہے جس سے سینکڑوں درخت جل کر خاکستر ہو گئے تھے ، لیکن اس پر بھی کوئی کارروائی نہ کی گئی اسی طرح خیبر پختونخوا کی اپوزیشن جماعتیں ہمیشہ سونامی بلین ٹری منصوبے پر انگلیاں اٹھاتی رہیں، لیکن آج حکومتی ارکان کی پراسرار خاموشی اور بیوروکریسی کے عوام کے لیے دن رات کام کرنے کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی اور معلوم یہ ہوا کہ وزراء خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ، کمشنر ملاکنڈ ڈویژن ریاض محسود نے چترال سمیت کالام سوات ، دیر ، باجوڑ اور دیگر علاقوں میں بھی جنگلوں کی کٹائی کیخلاف خفیہ سروے شروع کر دیئے ہیں ، اسی لیے لوگ کہتے ہیں ریاض محسود صاحب آپ جہاں گئے وہاں داستان چھوڑ آئے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں