احتساب کے ادارے بھی چکراکر رہ گئے
خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان میں پاکستان کی تاریخ کا ایک منظم ترین مالیاتی اسکینڈل بے نقاب ہوا ہے، جہاں سرکاری خزانے سے 40 ارب روپے (تقریباً 140 ملین ڈالر) کی غیرقانونی نکالی گئی رقم نے صوبائی حکومت کے احتسابی نظام کو شدید سوالات کے گھیرے میں لے لیا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے 25 ارب روپے مالیت کے اثاثے ضبط کرتے ہوئے کلیدی ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے، جن میں ایک ڈمپر ڈرائیور جیسے معمولی پیشے والے افراد بھی شامل ہیں جن کے بینک اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے موجود تھے۔
تفصیلی رپورٹ: اسکینڈل کے اہم پہلو
1. اسکینڈل کا پس منظر اور طریقہ کار
- منظم گٹھ جوڑ: محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس (C&W)، اکاؤنٹنٹ جنرل آفس، اور بینک افسران کی ملی بھگت سے 1,000 جعلی چیکس جاری کیے گئے۔ ان چیکس کے ذریعے سرکاری اکاؤنٹ (سیکورٹی اینڈ ڈپازٹ ورکس 10113) سے رقم “کنٹریکٹر سیکورٹیز” کے بہانے نکالی گئی۔
- سالانہ بجٹ سے 80 گنا زیادہ: کوہستان کا سالانہ ترقیاتی بجٹ محض 50 کروڑ سے 1.5 ارب روپے تھا، لیکن 2020-2024 کے دوران 40 ارب روپے بے ضابطگی سے نکالے گئے۔ یہ رقم ضلع کے 50 سال کے ترقیاتی فنڈز سے بھی زیادہ ہے۔
- فرضی کمپنیاں: ملزمان نے جعلی کنسٹرکشن کمپنیاں بنا کر بڑھا چڑھا کر منصوبوں کے بل جمع کروائے۔ مثال کے طور پر، ٹھیکیدار محمد ایوب (گرفتار) نے اربوں روپے کی رقم سے اسلام آباد میں اعظم سواتی کا گھر خریدا۔
2. نیب کی کارروائی اور ضبط شدہ اثاثے
ضبط شدہ اثاثے
- **نقد و جنس: 1 ارب روپے نقد، غیرملکی کرنسی، اور 3 کلو سونا۔
- بینک اکاؤنٹس: 73 اکاؤنٹس منجمد، جن میں 5 ارب روپے۔
- لگژری گاڑیاں: 77 گاڑیاں (مرسیڈیز، BMW، پورش)، مالیت 94 کروڑ روپے۔
جائیدادیں
- 109 پراپرٹیز: اسلام آباد، پشاور، راولپنڈی میں 30 مکانات، 25 فلیٹس، 12 کمرشل پلازے، 4 فارم ہاؤسز۔
- زرعی اراضی: 175 کنال زمین (اسلام آباد اور مانسہرہ میں)۔
- کل مالیت: 17 ارب روپے۔
3. اہم ملزمان اور گرفتاریاں
- محمد ایوب: ٹھیکیدار گرفتار، جس کے اکاؤنٹس میں 3 ارب روپے کی مشکوک منتقلی۔
- ممتاز خان اور محمد ریاض: 7 لگژری گاڑیاں اور اسلام آباد میں متعدد پراپرٹیز کے مالک۔ ان کے اثاثے عدالت کے حکم پر منجمد۔
- ڈمپر ڈرائیور: اس کے اکاؤنٹس میں ساڑھے 4 ارب روپے کی آمدن، جو فرضی کمپنی کے ذریعے جمع کرائی گئی۔
4. سیاسی ردعمل اور تحقیقات
- وزیراعلیٰ کا نوٹس: علی امین گنڈاپور نے اینٹی کرپشن اداروں کو 3 دن میں انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت جاری کی، لیکن اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ “وزیراعلیٰ مستعفی ہوں اور اسمبلی توڑ دی جائے”۔
- صوبائی اسمبلی کا موقف: اسپیکر کا کہنا ہے کہ “یہ اسکینڈل 200 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے”۔
- تحقیقاتی عمل: نیب نے ابتدائی انکوائری کو مکمل تفتیش میں تبدیل کر دیا۔ 50 مشتبہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی نشاندہی اور 30 افراد کو نوٹس جاری کردئے گئے ہیں
- دوسرے اسکینڈلز: مانسہرہ میں 73 کروڑ اور تورغر میں 54 کروڑ روپے کے الگ اسکینڈل بھی سامنے آئے ہیں، جو C&W اور آبپاشی محکموں کی ملی بھگت سے انجام پائے۔
احتساب کے نظام پر سوالات
یہ اسکینڈل نہ صرف منی لانڈرنگ کے جدید طریقوں کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ سرکاری اداروں کی نااہلی پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔ نیب کے مطابق، ڈائریکٹوریٹ جنرل آڈٹ جیسے ادارے بھی سالوں تک بے ضابطگیوں کا پتا نہ لگا سکے۔ اب 48 گھنٹوں میں مزید اعلیٰ سطحی گرفتاریوں کی توقع ہے۔
“یہ پیچیدہ اور کئی تہوں پر مشتمل فراڈ اپر کوہستان کے C&W ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے کیا گیا، جس نے قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔” نیب تفتیش رپورٹ
اس اسکینڈل نے صوبائی حکومت کے “زیرو ٹالرنس فار کرپشن” کے دعوؤں کو مشکوک بنا دیا ہے۔ عوام کی نظر میں اس کا سیاسی اثر آنے والے الیکشن میں واضح ہونے کا امکان ہے۔