آج کی خواتین بڑی با صلاحیت ہیں،� سیدہ زینب نقوی

سیدہ زینب نقوی :
خواتین ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں والدین کو بیٹیوں کی شخصیت سازی کرنی چاہئے ‘خیبر پختونخوا کا کلچر بہت مثبت ہے یہاں خواتین کو عزت و احترام دیا جاتا ہے

فیلڈ ورک میں پبلک ڈیلنگ کرنا ہوتی ہے ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے دکاندار چھابڑی فروش یا پڑھے لکھوں سے کیسے بات کی جاتی ہے یہ سب کچھ آپ کو فیلڈ سکھا دیتی ہے
مہنگائی کے کئی عوامل ہو سکتے ہیں طلب و رسد میں عدم توازن بھی مہنگائی کا باعث بنتا ہے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے’اسسٹنٹ کمشنر پشاور کی روزنامہ پیغامات سے گفتگو
پشاو ر میں ٹریفک مسائل مستقل اور عارضی تجاوزات قبضہ مافیا بڑے مسائل میں شامل ہیں ریڑھی بانوں کو متبادل جگہ فراہم کرتے ہیں تواگلے دن پھرانہوں نے اسی جگہ پر ریڑھی لگائی ہوتی ہے
منشیات سے پاک پشاور کی مہم میں ضلعی انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کیا اور کر رہی ہے اسی طرح گداگروں کے خلاف مہم زور و شور سے جاری ہے

انٹرویو۔شائستہ تسلیم

پشاور کی خاتون اسسٹنٹ کمشنر سیدہ زینب نقوی پشاور کی رہائشی ہیں میٹرک فارو ڈ ہائی سکول سے کرنے کے بعد ایف اے اور بی اے جناح کالج برائے طالبات سے کیا آپ جناح کالج میں اپنے زمانہ طالب علمی کے دور کو یادگار اور اپنی شخصیت سازی کا کریڈٹ جناح کالج کی معلمات کو دیتی ہیں جہاں پر آپ کی گرومنگ ہوئی بحث و مباحثوں میں حصہ لیا پراکٹر بنی کالج کے میگزین کی ایڈیٹر رہیں اس کے بعد لاء کالج سے ایل ایل بی کیا انہیں بچپن سے قانون سیکھنے کا شوق تھا اسی لئے ایل ایل کے امتحانات میں پورے صوبے میں تیسری پوزیشن لی بعدازاں وکالت کی پریکٹس کرتی رہی اور ساتھ درس وتدریس کا شعبہ بھی اختیار کیا پشاور کے اندورن شہر کے علاقے محلہ محمد داد کی رہائشی اسسٹنٹ کمشنر پانچ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں پورا گھرانہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے بڑی بہن تدریس کے شعبے سے وابستہ ہے وہ پی ایچ ڈی اور ریاضی میں پوسٹ گریجویٹ ہیں دوسری بہن نے مانچسٹر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے وہ نیورو سائنسدان ہے ایک ملاقات میں ”آج ” سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر سیدہ زینب نقوی کا کہنا تھا کہ فیملی میں وہ ذرا الگ طبیعت کی مالک ہیں اسی لئے آغاز میں اپنے لئے لاء کا شعبہ پسند کیا والدین نے مکمل سپورٹ کیا اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے شعبہ شرعی اینڈ لاء ڈیپارٹمنٹ میں اڑھائی سال تک خدمات انجام دیتی رہیں اسکے ساتھ وکالت کی پریکٹس بھی کرتی رہیں ہائیکورٹ کا لائسنس رکھتی ہیں’ دریں اثناء 2017ء میں جب خیبر پختونخوا میں پی ایم ایس کااشتہار آیا تو اپنے والد کی مکمل سپورٹ کیساتھ مقابلے کے امتحان میں حصہ لیا سکریننگ ٹیسٹ ہوا تحریری امتحان ہوا یہ تمام مراحل تین سال میں مکمل ہوئے اور جون 2020ء میں آپ پی ایم ایس کیلئے منتخب ہو گئیں انہوں نے صوبے بھر میں اکیسویں پوزیشن حاصل کی ‘اس دوران بھی وہ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہیں اور ساتھ وکالت کی پریکٹس بھی کرتی رہیں پی ایم ایس میں سلیکشن کے بعد 18ماہ کی ٹریننگ حاصل کی جس میں فیلڈ کا تجربہ حاصل کیا دوران تربیت اکیڈمی اور آرمی کیساتھ بھی اٹیچمنٹ رہی سٹڈی ٹورز کئے ٹریننگ کا مقصد کسی بھی آفیسر کو ہر لحاظ سے پر اعتماد بنانا ہوتا ہے ٹریننگ میں ہی شخصیت گروم کر لیتی ہے زینب کا مزید کہنا تھا کہ انکی پہلی تعیناتی محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم میں ہوئی جہاں پر آپ کو سیکشن آفیسر سکولز میل لگایا گیا اس عہدے پر آپ نے پانچ ماہ خدمات انجام دیں ایس او سکولز میل صوبے بھر کے گریڈ 17سے 20تک کے تدریسی وانتظامی کیڈر کے افسروں کی تقرری و تبادلے اور ترقی کے کیس ڈیل کرتا ہے یہ تجربہ ان کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے انکا کہنا تھا کہ ہماری بیورو کریسی کا ماننا ہے کہ جس آفیسرنے ابتدائی و ثانوی تعلیم یا پھر محکمہ صحت میں کام کرلیا وہ مکمل طور پر پالش ہو جاتا ہے اسکے بعد آپ کو پشاور کی اسسٹنٹ کمشنر لگا دیا گیا ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہرشعبہ آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتا ہے سکھاتا ہے میں نے جو سیکھا اسے اپنی طالبات میں منتقل کیا کیونکہ جب آپ پڑھا رہے ہوتے ہیں تو اسکے ساتھ آپ سیکھ بھی رہے ہوتے ہیں اپنے بچپن کے حوالے سے بتایا کہ مجھے شروع سے قانون سیکھنے کا شوق تھا حالانکہ فیملی درس و تدریس کے شعبے سے منسلک تھی جب میٹرک میں کچھ شعور آیا تو مزید تعلیم وکالت کی کرنے کی ٹھان لی تھی دوران پریکٹس مجھ میں خواہش پیدا ہوئی کہ مجھے بیورو کریٹ بننا ہے میں امی کو ایک جملہ بولتی تھی جب میں بڑی ہو جائوں گی تو آپ کو جھنڈے والی گاڑی میں بٹھائوں گی ایک طرح سے میرا خواب پورا ہو گیا ہے ‘فائل ورک اور فیلڈورک میں کتنا فرق ہے ‘کے جواب میں اسسٹنٹ کمشنر نے کہاکہ دونوں کے طریقہ کار میں بڑا واضح فرق ہے جب آپ سیکشن آفیسر ہوتے ہو تو ایک طرح سے پورے صوبے کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہو پورا دن فائل ورک کرنا پڑتا ہے لیکن اس میں سیکھنے کے بڑے مواقع ملتے ہیں رولز اینڈ ریگولیشنز پر عبور حاصل ہو جاتا ہے نوٹ شیٹ پراپنی کیا رائے دینی ہے آفیسرز کو کیسے بریف کرنا ہے یہ سب کچھ آپ دفترمیں سیکھ لیتے ہیں فیلڈ ورک اس سے بالکل مختلف ہیں آپ کو پبلک ڈیلنگ کرنا ہوتی ہے ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ایک دکاندار چھابڑی فروش یا پڑھے لکھوں سے کیسے بات کی جاتی ہے یہ سب کچھ آپ کو فیلڈ سکھا دیتی ہے مہنگائی پر عدم کنٹرول کے سوال پر زینب نقوی نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر نرخنامے جاری ہوتے ہیں ہم فیلڈ میں پرائس لسٹ چیک کرتے ہیں علی الصبح ہمارے فیلڈ آفیسر منڈیوں میں جاتے ہیں جہاں پر پھلوں اور سبزیوں کے ریٹ دیکھے جاتے ہیں پھر دن بھر بازاروں میں قیمتوں میں فرق کو دیکھتے ہیں مہنگائی یا قیمتوں میںاضافہ دراصل طلب و رسد سے تعلق رکھتا ہے اگر طلب زیادہ ہے اور رسد کم ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اب رسد کیوں کم ہے تو اسکی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں فصل اچھی نہیں آئی یا پھر سیلاب کے باعث فصلیں خراب ہو گئیں اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر ہمارا کام شروع ہو جاتا ہے کہ کہیں ذخیرہ اندوزی نہیں ہو رہی شکایات ملنے پر قانون کے مطابق ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے اسکے علاوہ پرائس ریویو کمیٹی ہے جسکے سربراہ ڈی سی ہوتے ہیں قیمتوں میں اتار چڑھائو کا جائزہ یہی کمیٹی لیتی ہے نوشہرہ کی ضلعی انتظامیہ کی خاتون آفیسر قرة العین وزیر کو دبنگ اور آئرن لیڈی کے خطابات کے سوال پر اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ خطابات تو عوام دیتے ہیں اگر عوام مجھ سے خوش ہیں تو یہ میری کامیابی ہے کیونکہ ہمیں تنخواہیں عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے ملتی ہیں ہم عوام کے سامنے جواب دہ ہیں ‘انہوں نے کہا کہ پی ایم ایس میں سلیکشن کے بعد اٹھارہ ماہ کی تربیت کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ میں اعتمادی سازی کی جائے دوسری بات خیبر پختونخوا کا کلچر بہت مثبت ہے یہاں پر خواتین کو بہت عزت و احترام دیا جاتا ہے میں کہہ سکتی ہوں کہ فیلڈ کے مرد افسروں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے خواتین آفیسرزکو یہ مشکلات درپیش نہیں ہوتیں پشاور کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منشیات سے پاک پشاور کی مہم میں ضلعی انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کیا اور کر رہی ہے اسی طرح گداگروں کے خلاف مہم زور و شور سے جاری ہے پشاور میں ٹریفک کے مسائل بہت زیادہ ہیں میں نے غیر فعال پارکنگ کو فعال کیا ہے آپ کو ہر قسم کے مافیاز ملیں گے تجاوزات کا بہت بڑا ایشو ہے پشاور میں عارضی اور مستقل دونوں قسم کی تجاوزات ہیں ہم ریڑھی بانوں کو متبادل جگہ فراہم کر دیتے ہیں لیکن اگلے ہی دن پھر وہ اسی جگہ پر پایا جاتا ہے جو ٹریفک کے مسائل بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں تجاوزات صفائی صورتحال گراں فروشی کے خلاف کاروائیوں میں یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ چھوٹا دکاندار ہے ہوٹل یا ریسٹورنٹ کا مالک ہے’تمام کاروائیاں بلا امتیاز کی جاتی ہیں ‘ایک اور سوال کے جواب میں زینب نے کہا کہ ہر آفیسر کے کام کرنے کا اپنا سٹائل ہوتا ہے اگر مسئلہ بات چیت سے حل ہوتا ہے تو ٹھیک ورنہ قانون کے مطابق کاروائی کرنا پڑتی ہے’انہوں نے کہاکہ کرسی اور ا ختیار ملنے کے باوجود کبھی غرور و تکبر کا شائبہ تک نہیں آیا انسان جتنا انکساری رکھے اسی میں اس کی کامیابی ہے شاپنگ کرنے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ پھل فروٹ خود خریدتی ہیںالبتہ رسید ضرور حاصل کرتی ہوں اور اس کا ریکارڈ بھی رکھتی ہوں ایسا نہ ہو کہ کوئی کہے کہ اے سی صاحبہ مفت فروٹ لے جاتی ہے خواتین کے حوالے سے اپنے پیغام میں سیدہ زینب نقوی نے کہا کہ اصل کردار والدین کا ہوتا ہے بیٹی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے اور رحمت کا کوئی حساب نہیں بیٹا نعمت ہوتا ہے اس کا حساب ہے لہٰذا والدین بیٹیوں کو پڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں خواتین کو کہنا چاہتی ہوں کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوا سکتیں ‘خواتین ہر شعبے میں اپنی صلاحیتیں منوا رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں