پی ٹی ایم اور پشتون : تحریر خالد جان داوڑ

پی ٹی ایم کا پہلا حملہ افواج پاکستان پر تھا،
دوسرا براہ راست ریاست پر،
تیسرا اسلام پر،
اور چوتھا حملہ وہ ” پشتو” پر کر رہی ہے۔

لفظ ” پشتو ” کا مطلب ہی ” غیرت ” ہے اور پشتون اس کو روزمرہ کی گفتگو میں غیرت کے متبادل لفظ کے طور پر استعمال بھی کرتے ہیں۔ جیسے ” تاکے پشتو نشتہ ” وغیرہ۔
پشتون دو چیزوں کے لیے مشہور ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام کے معاملے میں انتہائی جذبابی ہیں اور دوسرا پردے کے معاملے میں بہت سخت ہیں۔
لیکن پی ٹی ایم نامی پشتونوں کی نام نہاد تحریک پشتونوں میں ایک بلکل نیا کلچر متعارف کرا رہی ہے۔
کبھی کسی پشتون نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن سروں سے ننگی پشتون عورتیں ہجروں میں بیٹھ کر جرگے کیا کرینگی اور پشتون ان کو اپنی ” گرانے مشرانے” کہیں گے۔
لیکن پی ٹی ایم نے یہ کر دکھایا۔

پی ٹی ایم نے دو سال کے مختصر عرصے میں پشتون کلچر اور پشتونوں کی قابل فخر تہذیب کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔
پاکستان میں بےہودگی کے وہ مظاہرے کیے کہ پشتون تو ایک طرف پاکستان میں بسنے والی دیگر قوموں نے بھی دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔

پچھلے سال 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے موقعے پر پی ٹی ایم نے “عورت آزادی مارچ” منائی۔ اسلام آباد میں اس مارچ کو پی ٹی ایم کور کمیٹی کے اراکین ندیم ٹکر، خان زمان کاکڑ اور پی ٹی ایم”ملی مشرہ” گلالئی اسمعیل نے لیڈ کیا۔

ہاتھوں میں ناقابل بیان حد تک بےہودہ پلے کارڈز کے ساتھ ندیم ٹکر اور خان زمان کاکڑ ” عورت کو دے دو آزادی، عورت کیا چاہے آزادی” کے نعرے لگاتے نظر آئے۔
عین اسی دن پشاور میں بھی”عورت آزادی مارچ” منائی گئی۔ یہ شائد پشاور کی ہزاروں سالہ تاریخ کا انوکھا حادثہ تھا۔ وہاں بھی پی ٹی ایم ہی کی سنیر راہنما ثناء اعجاز نے اس کو لیڈ کیا۔ ان عورتوں نے ہاتھوں میں پشتو زبان کے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے۔ ان پلے کارڈز پر ” زما بدن زما اختیار” کے معنی خیز نعرے درج تھے۔
ثناء اعجاز نے دعوی کیا تھا کہ وہ تین ہزار کے قریب پشتون عورتوں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب رہیں ہیں۔

صرف چند دن پہلے پی ٹی ایم نے ” سٹوڈنٹ یکجہتی مارچ” منایا۔ اس مارچ کو لیڈ کرنے والوں پی ٹی ایم کی ہمدرد اور انتہائی متحرک کارکن عروج اورنگزیب نمایاں نظر آئیں۔
اس مارچ میں بھی بےہودگی کی ہر حد عبور کی گئی۔
پی ٹی ایم میں مردوں اور عورتوں کی مخلوط محفلیں منعقد کرانا اب معمول بن چکا ہے جس پر اب اعتراض تک نہیں کیا جاتا۔
پی ٹی ایم چاہتی ہے کہ پشتون ان مخلوط محفلوں اور بے پردگی کو اسی طرح قبول کر لیں۔

منظور پشتین نے اس کلچر کی حوصلہ افزائی کے لیے ہی نعرہ لگایا تھا کہ ” گرانہ وطنہ جینکے بہ دی گٹینہ” جو آج کل پی ٹی میں خاصا مقبول ہوچکا ہے۔

نہ صرف یہ بلکہ عورتوں کی عزتوں کو ہتھیار کی طرح استعمال کرنا بھی۔ یہ نظارہ ہم نے خیسور اور مہمند ایجنسی میں دیکھا۔ جہاں زبردستی پاک فوج پر عورتوں کی عزت سے کھیلنے کے الزامات لگائے گئے جب کہ اسی علاقے کے لوگ اور انہی گھروں کے مرد پی ٹی ایم کی منتیں کرتے نظر آئے کہ ” ہماری عزتوں پر اپنی سیاست نہ کرو”
ان میں سے ایک ملک متوڑکے کو پی ٹی ایم نے خاموش کرانے کے لیے قتل بھی کروا دیا۔
پی ٹی ایم کی انہی حرکتوں پر ڈی جی آئی ایس پی آر کو بیان جاری کرنا پڑا کہ ” فوج پر تنقید ضرور کریں لیکن اس کے لیے ماؤوں بہنوں کی عزت کو استعمال نہ کریں”۔ اس کے بعد بھی لیکن ان کو غیرت نہ آئی۔

پشتونوں ہزاروں سالوں کی تاریخ میں کبھی عورتوں کو اس طرح سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔
گلالئی اسمعیل پی ٹی ایم کی سینیر راہنما اور منظور پشتین کی انتہائی قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ پشتون عورتوں میں چادر کے استعمال کے خلاف باقاعدہ ایک این جی او چلا رہی ہیں اور ساتھ ہی پشتون عورتوں کو ابارشن کرانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ پوری پی ٹی ایم گلالئی اسمعیل کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔

پشتونوں کا کلچر تو ایک طرف پشتونوں کا مذہب بھی پی ٹی ایم کے نشانے پر ہے۔
پشون قوم کو ہمیشہ سے یہ فخر تھا کہ اسلام پر عمل کرنے میں وہ سب سے آگے ہیں۔ چاہے وہ نماز ہو، روزہ، ہو، پردہ ہو یا جہاد ہو۔ لیکن پی ٹی ایم کی بدولت پشتونوں میں پہلی بار الحاد داخل ہوا۔
پشتونوں کی تاریخ میں کبھی کوئی لادین نہیں ہوا تھا۔ آج پوری پی ٹی ایم کو بدنام زمانہ گستاخان رسول اور ملحد لیڈ کر رہے ہیں۔ جب کہ پی ٹی ایم میں آدھے سے زیادہ پشتون اسلام چھوڑ چکے ہیں جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا پر بھی کرتے رہتے ہیں۔
ان میں ایک مثال پی ٹی ایم جرمنی کے مشر لیاقت خٹک کی ہے۔ چند دن پہلے اس کی انتہائی گستاخانہ آڈیوز وٹس ایپ پر وائرل ہوئیں جس میں وہ پی ٹی ایم کی کامیابی کے لیے اسلام کے خاتمے کو ضروری قرار دے رہا تھا ساتھ ہی اللہ اور رسول کی شان میں نازیبا کلمات بک رہا تھا۔
پی ٹی ایم کی ہی ایک نہایت متحرک کارکن فوزیہ نے لائیو آکر قرآن پاک جلا دیا اور منظور نے بجائے اس کو برا بھلا کہنے کے یہ سوال اٹھایا کہ اس کو مجبور کس نے کیا؟ یعنی دبے لفظوں میں اس کا دفاع کیا۔

آج وقت آگیا ہے کہ پشتون اس پر غور کرنا شروع کریں کہ پی ٹی ایم درحقیقت پشتونوں سے کیا چاہتی ہے اور انہیں کہاں لے کر جانا چاہتی ہے؟
وہ پشتون سے اس کی فوج بھی چھیننا چاہتی ہے،
ان کا ملک بھی چھیننا چاہتی ہے،
ان کی غیرت بھی،
ان کا مذہب بھی،
اور ان سب کے بدلے میں کیا دے گی؟
لوئے افغانستان؟؟

ایک اور بات کی جسارت کرونگا کہ میں ذاتی طور پر پی ٹی ایم کو فوج ہی کا پیدا کردہ ایک تحریک سمجھتا ہوں جس کو پی ٹی ایم کا عام ورکر محسوس نہیں کرسکتا, جیساکہ ٹی ٹی پی کو پیدا کرکے فوج نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے اور قبائل کے ساتھ محمد علی جناح کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں فوج اتار کر بارڈر پر باڑھ لگا دیا اور اس ناممکن کام کو ممکن بنادیا اسی طرح پی ٹی ایم کو ہوا دے کر اپنے کسی بڑے مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے جوکہ وقت کے ساتھ سب پر عیاں ہوجائے گا۔۔


ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں