معاشی بدحالی، آبادی میں اضافہ، انسانی و قدرتی آفات، سہولیات سے محرومی، معاشی استحصال، بے روزگاری، غربت اور وسائل کا غیرمنصفانہ تقسیم جیسے مسائل کے باعث بچوں کو زیور تعلیم سے دور رکھ کر ان سے مشقت لینا ہمارے ملک میں ایک بڑا المیہ ھے جبکہ معصوم بچوں کی غلامانہ ملازمت کو عوام اور حکومت دونوں معیوب بھی نہیں سمجھتا۔
بڑھتی ھوئی آبادی، غربت ،بے روزگاری اور مہنگائی نے غریب بچوں کا سکول جانا دیوانے کا خواب بنا دیاھےجبکہ غریب مفلوک الحال والدین اپنے خاندان کے پیٹ کی آگ بُجھانے اور اپنے پھول جیسے بچوں سے نہ صرف یہ کہ مشقت لیتے ہیں بلکہ مالکان کے ھاتھوں ھر قسم کی ذہنی، جسمانی اور جنسی زیادتی تک کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہیں حالانکہ محنت کش بچے کوئی پیدائشی محنت کش بچے نہیں ہوتے، ان کی شکلیں بھی ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی ہوتی ہیں لیکن صرف وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ معاشرے میں ’’چھوٹے‘‘ بن کر رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ جو خطرناک ترین اور بدترین مشقت جو ان بچوں سے لی جارہی ھے۔ نہ صرف یہ کہ آئین کی خلاف ورزی ھے، بلکہ چائلڈ لیبر کے موجودہ قوانین اور بچوں کے حقوق سے متعلق ان بڑے بڑے بڑے معاھدوں کی بھی جس پر پاکستان نے دستخط کئے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ چائلڈ لیبر کے بارے میں قوانین تو بنتے ہیں لیکن آج تک کسی کو بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کے حوالے سے سزا نہیں دی گئی۔ امیر لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے حالت زار اس سے بھی بد ترین ہیں جن پرجسمانی اور جنسی تشدد کے واقعات آئے روز منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ جنوری 2010 میں لاھور میں شازیہ مسیح کے قتل کے بعد سے میڈیا میں بچوں کی گھریلو ملازموں پر تشدد اور زیادتی کے کم و بیش 100 واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ یہ سلسلہ تا حال جاری و ساری ھے جسکا کوئ پرسان حال نہیں۔
یہ بھی پڑھئے:اب کورونا کے ساتھ رہنا ہے،مگر احتیاط اور حفاظتی تدابیر کیساتھ عمران ٹکر
کیونکہ 2010 کے بعد 100 کے قریب بچہ گھریلو ملزمین کی اموات اپنے مالکان کے گھروں کی چار دیواری کے اندر ہی ھوئیں۔
ان معاملات سے پتہ چلتا ہے کہ بچہ گھریلو ملازمت پاکستان میں بچوں سے مشقت کی مہلک ترین شکلوں میں سے ھے۔ بچوں سے مشقت کے خاتمے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر تے ہوئے موثر ترین کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ متاثرہ بچوں کو مشقت کی بجائے زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاسکے۔ تاہم پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں حالات کا جواب دینے میں ناکام رہی ہیں۔
لھذا وفاقی و صوبائ حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ سرکاری گزٹ میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے، کالعدم پیشوں کے شیڈول میں چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کو شامل کرکے چائلڈ ڈومیسٹک لیبر پر فوری پابندی عائد کرے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین اور پارلیمنٹیرینز کے گھروں میں چائلڈ ڈومیسٹک لیبر پر پابندی لگانے سے شروع ہونا چاہئے۔
صوبائ اور وفاقی حکومتوں ںےبچوں سے مشقت پر ایک جامع سروے کرکے رپورٹ جلد از جلد شائع کرے کہ کتنے بچے کس عمر ، کس کس صنف اور کن کن وجوھات کی بنیاد پر کم ازکم کتنی اجرت پر کونسے شعبوں میں ملازم ہیں۔
اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتیں پاکستان کے آئین کے شق 25 اے کے تحت 5 سے 16 سال تک تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کے حصول کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ تاکہ کوئ بھی بچہ سکول جانے کے عمر میں ملازمت کی بجائے سکول جائے۔ کیونکہ پاکستان میں 2 کروڑ سے زیادہ بچے موجودہ وقت میں سکول نہیں جارھے ہیں جبکہ ان میں سے ایک کروڑ کے قریب بچے مختلف شعبوں میں ملازمت میں ہیں جن میں بڑے بڑے شہروں کے پوش ایریاز میں 10 گھروں میں سے ایک گھر میں کم از کم ایک گھریلو بچہ ملازم ھے۔
چائلڈ لیبر کے بین الاقوامی دن کے حوالے سے اور کرونا وباء کے تناظر میں بچوں کے بہترین مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت اور متعلقہ اداروں سے درخواست کیا جاتا ھے کہ بچوں سے کسی بھی قسم کی مشقت لینا زیادتی ھے لھذا اس دن کے حوالے سے سیاسی عزم کا اعادہ کرے اور پاکستان کے آئین، بچوں سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں جس پر حکومت پاکستان نے دستخط کیئے ھیں روشنی میں بچوں سے مشقت کے خاتمہ کے لئے عملی اقدامات اٹھائے۔
حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کا بھی فرض بنتا ہے کہ بچوں سے محنت و مشقت لینے کے بجائے ان کی تعلیم ،صحت اور خوراک و دیگر ضروریات کیلئے ان کے والدین کی مناسب سہولت کاری کرے۔
یہ بھی پڑھئے: 28 مئی شہدائے ٹکر ۔ خصوصی تحریر: عمران ٹکر
مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں