آج ماوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ لوگ اس دن کی مناسبت سے سوشل میڈیا پر مختلف پیغامات بھیج کر ماؤں سے محبت کا اظہار کررہے ہیں۔ میں نے بھی ارادہ کیا کہ اس عظیم رشتے کے بارے میں کچھ لکھوں۔کافی دیر تک سوچتا رہا کہ کس طرح کے الفاظ ڈھونڈ کے لاؤں اور کہاں سے شروع کروں,کیونکہ ماں تو مجسم محبت ہے ۔پیار کا سرمایہ ہے۔ماں بنیاد ہے سب رشتوں کی ماں ابتدا ہے سب چاہتوں کی.میں نے بھی کورونا وائرس کی وجہ سےباہر جاکر لوگوں سے پوچھنے کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے دوستوں سے اس رشتے کے بارے میں رائے مانگی تو محسوس ہوا کہ دنیا میں سچا رشتہ ہے تو وہ ہے صرف “ماں”کا.
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے دوست ساجد علی کوکی خیل نے اپنے جذبات کا اظہار پشتو زبان میں ایک شعر کے ذریعے کچھ یوں کیا.
“پس لہ مورہ بادشاہی بے خوندہ کیگی
خوندورہ ملنگی وی خو چی مور وی”
ترجمہ: کہ ماں کے جانے کے بعد اگر آپ بادشاہ بھی ہیں تو آپ کی زندگی بے مزہ اور بے معنی سی ہو جاتی ہےاور اگر ماں ہے تو آپ کی فقیری کی زندگی بھی خوبصوت ہوتی ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے صادق بلوچ کہتے ہیں کہ “ماں وہ ہستی ہے جوانسان کے پہلے لفظ اور پہلے قدم کی خالق بنتی ہے,خالق کائنات کے بعد روئے زمین پر انسان کیلئے اسکا روپ دھار کر اپنے بچوں کی زندگی کے پیراہن بناتی بناتی خود کو فنا کر لیتی ہے۔سلام اس عظیم ہستی پر جس نے مجھے اس قابل بنایا کہ انسان کہلا سکوں”۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی رانی ماں کی ہستی ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں کہ “ماں وہ خوشبو ہے جو روح کو معطر کرتی ہے,ماں وہ ہے جو اپنے خون سے سینچتی ہے ماں وہ ہے کہ جس کا سایہ جب سر پر ہو تو زمانے کی گرمی اثر نہیں کرتی, ماں وہ ہے جسے بھوک نہیں لگتی, ماں وہ ہے جو کبھی بیمار نہیں ہوتی, دنیا کا کوئی رشتہ بھی اس کا نعم البدل نہیں ہے,دنیا کا کوٸی قلم بھی اس کو نہیں لکھ سکتا,ماں وہ موتی ہے جو انمول ہے”۔
ارشاد قریشی نے اس رشتے کو الفاظ میں کچھ اس انداز سے بیان کیا کہ ماں اور بچے کے درمیان پانے والا رشتہ دنیا کا سب مضبوط رشتہ ہے,ماں قدرت کا شاہکار ہے, ماں مجموعہ ہے محبت,چاہت اوردوسی کا۔
ماجد خان نے کہا کہ “حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں عشاء کی نماز پڑھ رہا ہوتا اور میں سورہ فاتحہ پڑھ رہا ہوتا اور میری ماں نے مجھے آواز دی ہوتی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو میں نماز چھوڑ کر کہتا لببیک یا امی”.
عثمان خان کہتے ہے کہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے تو ان کے سر کے اوپر کا مقام کیا ہوگا۔
زیور نور ضیا کہتے ہیں کہ “ماں وہ عظیم ہستی ہے کہ جنت کا تصور اور حقیقت دونوں سے ظاہر ہے کہ جنت آسمانوں میں ہے، اور آسمان ہمیشہ سر کے اوپر ہوتاہے، مگر جب بھی کائنات میں ماں جیسی ہستی کا نام لیا جاتاہے تو اللہ خود اتنی عزت دیتا ہے کہ جنت آسمانوں سے لا کر ماں کے قدموں کے نیچے بچھا دیتا ہے، جس ہستی کو اللہ نے اپنے جنت سے اعلی مقام دیاہے، اس ہستی کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا، ماں بس ماں ہوتی ہے”
لاہور کی نور الہدی شاہ نے اپنی ماں کو بہترین دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ “دنیا جہاں میں آپ کو کہیں ایسا دوست نہیں مل سکتا جو ماں کے روپ میں آپ کے پاس آپ کے گھر میں ہے,بس اس رشتے کو سمجھنا چاہیئے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے”.
جبکہ خیراللہ عزیز,محمد ارشاد,علی ہوتی,ارشد سلفی اور روداب خان سمیت کئی دوستوں کا کہنا ہے کہ اس رشتے کی عظمت اور جلال اور بڑھائی انتی زیادہ ہے کہ الفاظ کا انتخاب ان کے لئے مشکل ہو گیا ہے.
پس ثابت ہوا کہ ماں وہ رشتہ ہے جو خود بھوکی رہ کر اپنے بچوں کو کھلاتی ہے, ماں اپنی پسند اور نا پسند کو بھول کر اولاد کے ناز نخرے اٹھاتی ہے, ماں وہ ہے جو سخت گرمی میں خود کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کو ہاتھ کا پنکھا جھلاتی ہوئے دیتی ہے, ماں وہ ہے جو سارا دن دوسروں کے گھروں میں کام کرنے کے بعد بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی ہے,ماں وہ ہے جس نے نو مہینے بچے کو اپنے پیٹ میں پالا,ماں وہ ہے جس نے پیدائش سے لے کر جوانی تک اولاد کی ہر خواہش کا خیال رکھا.اب اولادکی باری ہے کہ اپنی ماں کی قدر کرے ایسا نہ ہو کہ کل اپنے ماضی کو دیکھ کر پچھتائے۔ماوں کے نام ایک دن نہیں ساری زندگی بھی اگر اولاد وقف کر دے تو کم ہے۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے کہ
سب کہہ رہے ہیں کہ آج ماں کا دن ہے
بتاؤ وہ کونسا دن ہے جو ماں کے بن ہے
““بتاؤ وہ کونسا دن ہے جو ماں کے بن ہے” تحریر : کاشف عزیز” ایک تبصرہ