تحریر : کنول رضوان
آج کی عورت کو معلوم ہی نہیں ہے کہ اسکا مسئلہ کیا ہے۔ زمانے کے رواجوں کی ستائی ہوئی عورت جب کسی کو اپنے حق میں بولتے سنتی ہے تو اسکی بھی زبان بولنے لگتی ہے. اس وقت صرف اسکے جذبات کام کرتے ہیں جنہیں یہ لگ رہا ہوتا ہے کہ یہی ذریعہ نجات ہے. پھر کہیں تو وہ گھر سے بھاگ جاتی ہے اور کہیں وہ میرا جسم میری مرضی کے نعرے بلند کرتی ہے۔ یہ جانے بغیر کہ ایک عورت ہوتے ہوئے اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود کو یوں بازاروں میں رسوا کرے. عورت ہو تو باوقار عورت بنو. اپنی مرضی سے جیو لیکن اپنی عزت پہ آنچ نا آنے دو کسی کو اتنی جرات نہ ہو کہ تمہارے بارے میں بول سکے۔ کوئی بری نظر سے دیکھے تو اسکی آنکھیں نکال لو، کوئی تمہارے کردار پہ انگلی اٹھائے تو اسکا منہ توڑ دو. تم عورت ہو اور یہی تمہاری طاقت ہے اسے اپنی کمزوری مت بننے دو۔ کہیں تم ظلم سہتے ہوئے اپنی جان دے دیتی ہو اور اپنے حق کے لیے نہیں بولتی۔گویا خود پہ ظلم کرتی ہو کہیں تم اپنے حق کے لیے بازاروں میں نکل کھڑی ہوتی ہو یہ بھی خود پہ ظلم ہے۔تمہارے حقوق قرآن پاک میں بتا دیے گئے ہیں۔ان حقوق کے حصول کے لئے لڑو لیکن اپنا وقار مت گراؤ۔ تم سڑکوں پہ آنے کے لئے نہیں بنی۔
یہ بھی پڑھئے : دہشت گردی نے وزیرستانی خواتین کا روایتی لباس بھی ہڑپ کرلیا
تمہارا حق مارنے والے مرد تمہارے گھروں میں موجود ہیں حق تمہیں ان سے لینا ہے سڑکوں پہ نہیں رکھے تمہارے حقوق.. گھر میں رہ کر اپنا حق وصول کرو کوئی تمہارا حق نہ دے تو چھین لو لیکن اپنے فرائض مت بھولو۔ اپنی پہچان مت بھولو۔ مخلوط اداروں میں اپنی تعلیم بھی لو نوکری بھی کرو لیکن کسی کو یہ اجازت مت دو کہ تمہارے چال چلن پہ بات کرے۔ تم کسی کی عزت کی محافظ نہیں ہو تمہارے ذمے صرف تمہاری عزت کی حفاظت ہے۔اپنی عزت کو سڑکوں پہ مت لاؤ اور نہ ہی کسی کی باتوں میں آ کر اپنا گھر چھوڑو۔جسے تمہاری ضرورت ہے عزت سے لے کے جائے عزت نہیں دے سکتا تو چاہے مر بھی جائے تو اسکی پروا مت کرو۔پسند کی شادی تمہارا حق ہے لیکن اس حق کو استعمال کرنے کے لیے خود پہ ظلم مت کرو۔ تم سڑکوں پہ آتی ہو گھر سے بھاگتی ہو خود کشی کرتی ہو تو کسی کی عزت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔فرق صرف تمہیں پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : بول کہ لب آزاد ہیں تیرے…. تحریر رفعت انجم
یہ معاشرہ یہ مرد تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ تم انکے سامنے تماشا بنو اور وہ تم پہ ہنسیں تمہیں محافل میں زیر بحث لایا جائے۔اپنے فرائض پورے کرتے ہوئے اس معاشرے اور مرد سے اپنے سارے حق چھین لو. تم ایک عورت ہو اپنے مقام کو سمجھو لیکن ایک بات یاد رکھو اگر تم اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرو گی تو تمہیں اپنے حقوق مانگنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے اور اگر تم فرائض پورے کرنے کے چکر میں اپنا حق چھوڑ دوگی تو تم ظالم ہو۔ خود پہ ظلم کرو گی۔ تم عورت ہو اس لئے معتدل رہنا سیکھو۔ مرد کا پسندیدہ مشغلہ عورت پہ بحث کرنا ہے , کرنے دو.. . یہ آج بھی کرتے ہیں یہ کل بھی کریں گے کوئی تمہارے حق میں بولے گا کوئی تمہاری مخالفت کرے گا۔ یہ ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا لیکن تم اتنی طاقتور ہو کہ انکی باتوں کو عورت کے کردار سے عورت کے کمالات تک لا سکتی ہو۔ انکی باتوں کا رخ بدلو اتنی طاقتور بنو کہ یہ تمہارے کردار پہ بات کرنے سے ڈرنے لگیں. تمہاری حمایت کرنے کا حق بھی انہیں مت دو کیونکہ تم اپنے لیے کافی ہو. اپنے حقوق کے لیے جان لڑاؤ لیکن اپنے فرائض مت بھولو اور یہ یاد رکھو کہ تمہارے حق بھی تمہارے گھروں میں ہیں۔ سڑکوں پہ آنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ اس لیے اپنی سوچ بدلو تا کہ تم دوسروں کی سوچ بدل سکو۔
( مضمون نگار بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی طالبہ ہے )
ادارے کے نمائندے 24 گھنٹے آن لائن رہتے ہیں، کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
3 تبصرے “اپنی سوچ بدلو،معاشرہ خودبخود بدل جائیگا۔ کنول رضوان”