میں سکرین پر عمران بخاری کے نمبر کو تک رہا تھا۔ ہمت ہی نہیں تھی اس کے کال کو اٹنڈ کرنے کی۔ کیا سنتا اور کیا کہتا، کل ہی تو میں نے اس سے جھوٹ بولا تھا اور فخرالدین کی صحتیابی کی جھوٹی آس دلادلا کر مسلسل اسے احتیاط کرنے کا کہہ رہا تھا۔ اس سے قبل ہی فخرالدین کا ڈاکٹر مجھے بتا رہا تھا کہ بیماری کی ہسٹری اور اب کرونا کے حملے کے بعد ان کی زندگی ایک معجزہ ہی ہو گی۔ جب اسے وینٹی لیٹر پر لے جانے کا فیصلہ ہوا تو ساتھی خلیل الرحمٰن کو کال کرکے بتاتا رہا کہ وینٹی لیٹر پر جانے کا مطلب موت ہوتا ہے لیکن اسے بھی یہ نہیں بتایا کہ فخرالدین کو وینٹی لیٹر پر لے جانے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔ رات گئے جب ڈاکٹر نے بتایا کہ اسے مصنوعی تنفس پر زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو میں سمجھ چکا تھا کہ فخرالدین جیسا خوددار اور ضدی لڑکا اس مانگی تانگی سانسوں کی خیرات کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔ فدا عدیل کو آخری میسیج بھیجا “۔۔۔اب تو صحافت اور صحافی سے وینٹی لیٹر پر ہی ملاقات ہوتی ہے۔”
یہ بھی پڑھئے: فخر واقعی قابل فخر۔۔۔ خصوصی تحریر: ابراہیم خان
سینئرساتھی اور 92 نیوز خیبر پختونخواہ کے سبراہ ممتاز بنگش سمیت سب نے بھر پور کوشش کی لیکن اس نے جانا تھا۔ جس طرح ایک خود کچھ نہیں ہوتا لیکن ایک کروڑ سے نکل جائے تو کروڑ کروڑ نہیں رہتا ایسا ہی تھا ہمارا فخرالدین!
عمران بخاری کی کال میرے موبائیل سے سر ٹھکرا ٹھکرا کر خاموش ہو گئی اور فخرالدین کی یادیں کسی فلم کے پردے کی طرح ذہن میں چلنے لگیں۔
اگست 2003
عمران بخاری، عابد، فخرالدین اور گلبہار میں واقع سوڈا واٹر کا ڈھابہ
عمران بخاری سے کسی کو لاکھ اختلاف سہی لیکن بدنیتی نام کا پرندہ اس کے قریب سے نہیں گزرا۔ فخرالدین پاکستان اخبار میں اپنے استاد محترم شکیل صاحب کی باتیں سنا رہے تھے اور عمران کی خواہش تھی کہ فخرالدین روزنامہ مشرق جوائین کر لے۔
“چیف! میں چاہتا ہوں کہ ایک بڑی سٹوری کروں، ان کو (باقی ساتھیوں کی طرف اشارہ کرکے) پتا نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ آسمان میں کیمرے فکس ہو گئے ہیں اور جو کوئی بھی حرکت کرے گا یا کوئی بات کرے گا وہ ریکارڈ ہو گی۔”
ملنگ رپورٹر کی اس بات کا خوب مذاق اڑایا گیا۔ فخرالدین کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ عالمی سازشی تھیوریوں پر بہت دھیان رکھتا تھا اور اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کی یہ تھیوریاں صحیح ثابت ہوتی تھیں۔ ہم نے بعد میں ڈرون کی شکل میں اس کی خبر کو سچ پاتے دیکھا۔
فخرالدین کے ساتھ ایک تعلق بن چکا تھا۔ اسے لگتا تھا جیسے میرے پاس ہر مسئلہ کا حل ہے۔ میں ہمیشہ اس کے لئیے ایک دیوار گریہ رہا۔ اس نے مجھے کبھی ایک حقیقت کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیابکہ ہمیشہ ایک افسانوی کردار سمجھا۔ ایک ایسا کردار جسے ہر چیز کی سمجھ تھی اور جو کسی بھی خامی سے مبرا تھا۔ میں نے کئی دفعہ اس کو اپنی خامیوں سے آگاہ کیا۔ جواب میں وہ مسکرا دیتا جیسے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ اس وقت اس کی یہ ہنسی مجھے طیش دلاتی۔ پھر مجھے سمجھ آگئی اور میں اس کی ناں سمجھ میں آنے والی باتوں پر بھی سر ہلانے لگا۔ جیسے ملنگ و پیر بولتا ہے اور مرید نا سمجھنے کے باوجود ایسے سر ہلاتے ہیں جیسے اسے ہر لفظ سمجھ آرہی ہو۔ وہ بولتا رہتا تھا اور میں گھنٹوں سنتا رہتاتھا۔ میں یہ سمجھ گیا تھا کہ میں اس کے ذہن کا ایک کردار ہوں۔ اس کے افسانے کا وہ کردار جسے وہ اپنے حساب سے ہیرو بناتا اور کبھی یہ کہہ کر زیرو کہ “چیف، تمہیں کیا پتا بڑی لمبی گیم ہو رہی ہے” ملنگ فخرالدین مخصوص انداز میں انگلی گھما کر انکشاف کرتا اور میں چپ کر جاتا کیونکہ یہی میرا کردار تھا جو اس نے اپنے حساب سے لکھا تھا۔ وہ روٹھ لیتا اور مجھے نہیں پتا ہوتا کہ کیوں روٹھا۔ میرا کردار پھر اسے منانے کا ہوتا اور میں اس کے سامنے تسلیم کرتا کہ مجھے پتا نہیں تھا میرا یہ کردار اسی نے اپنے حساب سےلکھا تھااور وہ ایک فاتح لکھاری کی طرح مجھے مسکرا کر دیکھتے کہ ایک بار پھر اس کے کردار نے اس کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ ہر پل ایک نئی کہانی، ایک نیا کردار اور تحریر کرنے کے لئیے نئے واقعات۔ وہ میرا ملنگ بابا تھا اور میں اس کا افسانوی کردار۔۔۔۔پھر میں اس سے ڈرنے لگا اور آہستہ آہستہ دوری اختیار کی۔۔ ایک روز میں اسلام آباد کلب میں بیٹھا تھا کہ اس کی کال آئی۔
ایک نظر یہاں بھی : صحافی کے ساتھ اس کا پورا خاندان بھی پیوند خاک ۔۔ تحریر: اے وسیم خٹک :
“چیف! کہاں ہوں۔پشاور بہت سونا سونا لگتا ہے تمہارے بنا۔ واپس آؤ مڑہ! سارے ساتھی پھر اکٹھے ہو جائیں گے۔ ان کو کیا پتا دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔”
میں نے جھر جھری سی محسوس کی شاید اس نے میرے لئیے پھر کوئی کردار سوچ لیا ہے۔ میں فون پر ہی رابطے میں رہا کوئی کام نہ بھی ہوتا اس کو کسی کام کا کہتا۔ کیونکہ میں سمجھ گیا کہ وہ چاہتا ہے کہ میں اس سے امید رکھوں اور یہ یقین دلاؤں کہ میں اس کے قریب ہی کہیں ہوں۔ کبھی کبھی گھر سے اس آواز کا آنا کہ گھر پر کوئی نہیں اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ گھر پر کوئی تو ہے۔
اب اس گھر کو تالا لگ گیا تو ہمت ہی نہی کہ آواز دوں بھلا قفل شدہ باب پر کوئی صدا لگاتا ہے۔ وہ جو ملنگ تھا اس نے تو یہ گلیاں ہی چھوڑ دیں۔ ان کے ساتھ ہر لمحہ ایک کہانی ہے ایک ملنگ درویش کے سپنوں اور اس دنیا کے بیچ میں حائل خلیج کی کہانی۔ ہم مردہ پرست ہیں اور ہمیشہ جانے والوں کو ہی یاد کرتے ہیں ہمیں اب ان کے بارے میں سوچنا چاہیئے جن کے بارے میں فخرالدین فکر مند رہتا تھا۔ میں نے ان کے دفتر کے ایک اور ساتھی رحم شید کا حاک پوچھا۔ اللہ باقی ساتھیوں پر بھی رحم کرے۔ جنہوں نے جانا ہوتا ہے وہ رک نہیں سکتے۔ جس طرح جہاز کے واقعہ میں جن دو افراد کو زندگی کے سٹیج پر ابھی رکنا تھا وہ زندہ رہے۔
وہ ملنگ فخرالدین جو مجھے ایک افسانوی کردار سمجھتا رہا اب خود میرے لئیے ایک افسانوی کردار بن چکا ہے۔ زندگی کا یہ ناٹک کب ختم ہو گا کوئی نہیں جانتا۔ لیکن ناٹک کا ایک اصول ہے کہ ناٹک کے اختتام پر پردہ گر کر ایک مرتبہ ضرور اٹھتا ہے اور اس ناٹک کے اختتام پر بھی یہی ہوگا۔ یہ میرا ایمان ہے۔ پردہ اٹھے گا اور سارے کردار سٹیج پر نمودار ہوں گے۔ ہال تالیوں سے گونجے گا اور ہماری ایک اور ملاقات ہوگی۔۔۔الوداعی ملاقات۔۔۔چلو فخرالدین، پھر ملیں گے۔
“قصہ ملنگ فخرالدین کا! سید فخر کاکاخیل” ایک تبصرہ