میران شاہ ( دی خیبر ٹائمز رپورٹ ) شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کے نواحی علاقے شیراتلہ میں دو مقامی نوجوانوں کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں، جاں بحق ہونے والوں میں حمید نامی نوجوان کا تعلق تحصیل دوسلی سے بتایا جاتا ہے جبکہ دوسرے نوجوان نصر اللہ کا تعلق تحصیل میران شاہ کے نواحی گاؤں قطب خیل سے بتایا جاتا ہے، پولیس نے دونوں کی میتیں ان کے خاندان کے حوالے کر کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، پولیس ذرائع کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ دونوں نوجوان لین دین کے تنازعے کا شکار ہوئے ہیں، تاہم تحقیقات کے بعد ہی قتل کے اصل محرکات سامنے آئینگے۔
دوسرے واقعے میں تحصیل میران شاہ کے نواحی علاقے سپلگہ میں دو نامعلوم نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے سکیورٹی فورسز کے دو اہلکار حوالدار تاج بار اور سپاہی عبدالرشید کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ قریبی دکان سے سودا سلف خریدنے کے بعد واپس چیک پوسٹ آ رہے تھے، سکیورٹی فورسز نے ملزمان کی نشاندہی اور گرفتاری کیلئے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، ملزمان تک رسائی حاصل کرنے کیلئے سکیورٹی فورسز نے متعدد شہریوں کو تحویل میں لے کر ان سے پوچھ گچھ کی ہے، مقامی شہریوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے شہریوں کو تحویل میں لینے کے خلاف سوشل میڈیا پر سکیورٹی فورسز کو تنقید کا نشانہ بنایا، فورسز کے ایک ذمہ دار اہلکار نے دی خیبر ٹائمز کو بتایا ہے کہ تحویل میں لئے جانیوالے افراد سے معمول کی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے جس کے بغیر ملزمان تک رسائی ممکن نہیں، اگر سکیورٹی فورسز قاتلوں تک رسائی کیلئے کسی سے پوچھنا بھی ترک کر دیں تو وزیرستان میں امن کا قیام خواب ہی بن کر رہ جائیگا، سکیورٹی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحویل میں لئے جانے والوں پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا ہے تاہم اس کے برعکس سوشل میڈیا پر آپریشن ضرب عضب سے بھی قبل کی تصاویریں اپ لوڈ کرکے آج کے واقعے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرستان میں عام آبادی کے تعاون کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں۔ شہری اگر تعاون چھوڑ دیں گے تو کسی بھی قسم کی بدامنی اور پرتشدد واقعات کا تدارک ممکن نہیں۔
واضح رہے کہ شمالی وزیرستان میں بدامنی پھیلانے کی کوششیں جاری ہیں جس کے باعث نہ صرف سکیورٹی اداروں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ عام شہریوں کا بھی جینا محال ہوتا جا رہا ہے۔
Load/Hide Comments