ڈاکٹر اور طبی عملہ اس وقت کورونا کے خلاف جنگ میں صف اول کے سپاہی ہیں جو مشکل حالات کے باوجود جواں مردی سے وائرس کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہیں۔ خیبرٹیچنگ ہسپتال پشاورکی سٹاف نرس ثمینہ شاہنوار کہتی ہیں کہ کورونا وائرس سے متعلق ابتدائی دنوں میں وہ انتہائی ذہنی دباﺅ کا شکار اور خوفزدہ تھیں، پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ(PPEs) کے ساتھ آئسولیشن وارڈ میں 6 سے8 گھنٹے گزارنا ایسا تھا جیسے کسی نے کنویں میں دکھیل دیا ہو، PPEs اپنانے کے بعد کھانے پینے سے پرہیز کرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ باتھ رومز جانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی، ماسک ،ہاتھوں پر تین عددگلوز، بڑے سائز کی عینکوں کے ساتھ پورا جسم کورونا وائرس سے بچاﺅ کے پیش نظر حفاظتی کٹس سے ڈھانپا ہوا ہوتا ہے جس سے ہوا نہ اندر آسکتی ہے نہ ہی باہر نکل سکتی ہے ، PPEs میں گھٹن سے ایک ایک منٹ مشکل سے گزرتا ہے ماسک اتارنے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے ناک کی ہڈی ٹوٹ چکی ہو، کئی دن تک چہرے پر ماسک کے نشانات تھے نمازپڑھتے وقت سجدہ لگانے میں بھی دشواری کاسامنا رہتا تھا لیکن الحمداللہ اب صورتحال مختلف ہے اورحالات کے ساتھ عادی ہوچکے ہیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ثمینہ شاہنوار نے مزید کہا کہ ان کے لئے اذیت ناک لمحہ وہ تھا جب حفاظتی تدابیر کی خاطر اپنے بچوں کو خود سے دورکیا اور تین تین دن ان سے ملاقات نہ ہوپاتی، کورونا مریضوں کے علاج معالجے کے دوران جب بھی ممتا تڑپتی توآنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکلتے، انکا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ کورونا وائرس انہیں بھی لگ سکتاہے لیکن 13سالہ کیرئیر میں کبھی اپنے پروفیشن پر سمجھوتہ نہیں کیا، جان بچانے والی ذات ایک اللہ کی ہے لیکن انسان کی جان بچانے کے لئے جو کام خالق کائنات نے ہم سے لینا ہوتا ہے اس کو بخوبی انجام دینا فرض سے کم نہیں سمجھتی۔ آئسولیشن وارڈ میں ایک ڈاکٹر، لیب اسسٹنٹ، سٹاف اور وارڈ بوائے کورونامریض کےساتھ رہتا ہے، وائرس سے متاثرہ مریض کو حفاظتی کتس میں ملبوس طبی عملے کی صرف آنکھیں ہی نظر آتی ہیں جو سارا کام بہت دھیان سے کررہے ہوتے ہیں، مریض کا پہلا سوال ہی یہی ہوتا ہے کہ مجھے کیا ہوا ہے ؟؟،، کوروناوائرس کے باعث جو اموات ہورہی ہیں وہ انتہائی دردناک ہیں، ہسپتالوں میں 12,12گھنٹے ڈیوٹی دینے والے طبی عملہ کے لئے یہ مناظر دل دہلا دینے والے ہیں، ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے زیرعلاج مریض سے رشتہ داروں کے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی، سب سے مشکل لمحہ وہ ہوتا ہے جب رشتہ داروں کی عدم موجودگی میں مریض مررہا ہوتا ہے جب کہ مرنے والوں کی میت لے جانے کے لئے بھی دوسے زائد افراد ہسپتال نہیں آتے۔
کورونا وائرس نے انسانی ذہنوں پر بھی کافی اثرات چھوڑے ہیں اس بارے میں ڈوگرہ ہسپتال ضلع خیبرکی ماہر نفسیات عرشی ارباب نے بتایا کہ کورونا وائرس سے زیادہ تر خواتین ذہنی تناﺅ کا شکار ہورہی ہیں جن میں ڈر پایا جاتا ہے خاص کر نوجوان لڑکیاں زیادہ اس وائرس سے خوف وہراس میں مبتلاہیں جن میں اکثر کھانا پینا چھوڑ دیتی ہیں انکی نیند پوری نہیں ہوتی اور خود کو ایک کمرے تک محددد کردیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصدقہ اور غیر مصدقہ معلومات کی وجہ سے لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے ہیں خواتین ارھر ادھر کی باتیں سن کر خوفزدہ ہوجاتی ہیں ان کے مقابلے میں مرد حضرات باشعور ہیں ان کے پاس جب بھی مریض آتا ہے یہی پوچھتا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے،،کیوں ہورہاہے،،کب تک چلے گا،، اس طرح کے مریضوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے اور وہ ایسے مریضوں کو مشورے دیتے ہیں اور ذہنی دباؤ یا تفسیاتی مسائل کے شکار افراد کی کونسلنگ کرتے ہیں تاکہ وہ ذہنی طور پر پرسکون ہوسکیںں۔ عرشی ارباب نے مزیدںکہا کہ لاک ڈاﺅن کی وجہ سے گھر بیٹھے مردوں کے مزاج میں غصہ آگیا ہے، مسلسل گھر میں رہنے سے مرد تنگ آچکے ہیں اسلئے گھریلو جھگڑے بھی زیادہ ہوگئے ہیں، ورزش سے ذہنی سکون حاصل کیا جاسکتا ہے نیز میڈیا اپنامثبت کردارادا کرکے لوگوں میں شکوک وشبہات کاخاتمہ کرسکتا ہے۔
“کورونا وائرس سے ممتا بھی غیرمحفوظ … تحریر:ہارون رشید” ایک تبصرہ