افغانستان میں ایک بار پھر طالبان نے امن معاہدہ پر عملدرآمد کے عمل سے بائیکاٹ کر لیا۔ طالبان زرائع کے مطابق کچھ قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کا مطلب حکومت کی معاہدہ شکنی ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت نے افغانستان میں برسر پیکار داعش یا خلافت خراسان کے اہم ترین کمانڈر اسلم فاروقی کی گرفتاری کا اعلان کر دیا۔ تا ہم طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلم فاروقی نے سرنڈر کیا ہے اور افغان حکومت نے ان کو پناہ دی ہے۔ اس ابھرتی صورتحال میں فی الوقت افغانستان میں امن بعید دکھائی دے رہا ہے۔ تو پھر کیا ہونے جا رہا ہے؟
امریکہ تو دراصل کرونا کے عذاب سے ہہلے ہی امریکی صدارتی انتخابات کے باعث افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کر چکا تھا۔ طرز عمل گویا ایسا تھا جیسے افغانی جائے بھاڑ میں ہمیں اجازت دو کہ ہم تو نکلیں۔ شائد ان کو معلوم نہیں تھا کہ افغانستان آنا آسان لیکن اس سے نکلنا نا ممکن ہے۔ روس نے نکلتے نکلتے آٹھ سال نکال لئیے۔ جیسے ہی امریکہ کے عزائم ظاہر ہوئے صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے صدارتی بندر بانٹ کا آغاز کیا۔ یہ کبھی نہ ہوتا اگر اقلیتی رہنما عبداللہ عبداللہ کو شکست کے باوجود فتح کی کرسی نہ دی جاتی۔ اس بار وہ شکست کے باوجود پورے کا پورا تخت کابل چاہتا ہے۔ افغان ساتھی تجزیہ کاروں کا تو ماننا ہے کہ باہم افھام وتفہیم سے یہ مسئلہ حل کر دیا جائے گا۔ اور افغان قوم کو پتا ہے کہ وہ بات چیت سے مسئلہ کیسے حل کر سکتے ہیں لیکن بیرونی ہاتھ اس میں مداخلت نہ کریں۔ جو انتخابات بیرونی مداخلت سے تکمیل کو پہنچیں اس میں بیرونی مداخلت نہ ہوں خام خیالی ہی ہو سکتی ہے۔ بہرحال اس صدارتی انتخابی انتشار کا فائیدہ مسلح جھتوں کو ہی پہنچ رہا ہے جو آئے دن کابل پر قبضہ کا سوچ رہے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ معاہدہ کا نقصان البتہ طالبان کو یہ ہو رہا تھا کہ اس کے ستر ہزار جنگجو ناراض ہو کر داعش کی طرف جا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان اب پورے کا پورا افغانستان مانگ رہے ہیں اور وہ بھی مزاکرات کے زریعہ نہیں بلکہ بزور شمشیر تاکہ کل یہ طعنہ سننے کو نہ ملے کہ وہ معاہدہ کر کے ائے ہیں۔ یہ دیکھ کر افغان حکومت نے بھی داغش یا خلافت خراسان کو مظبوط کرنے کی ٹھان لی ہے کہ اگر معاملات بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں تو پھر افغان ارمی غیر اعلانیہ داغش کے ساتھ ملکر افغان طالبان کے خلاف لڑے گی۔ کیا اس طرح کبھی ہوا ہے ہے کہ دو دشمن۔ ملکر مشترکہ دشمن کے خلاف لڑیں۔ بالکل شام میں یہی ہوا۔ امریکہ مغرب، داغش ملکر بشارالاسد،ایران اور روس کے خلاف لڑتے رہے۔ یہاں تو روس، ایران، امریکہ، طالبان اور داغش پہلے سے موجود ہیں۔ کہتے ہیں امن دو جنگوں کے درمیان وقفہ کا نام ہے۔ افغانستان میں امن کا یہ وقفہ کتنی دیر رہتا ہے اس کا دارومدار خطہ میں موجود طاقتوں کی ترجیحات اور فرصت پر ہے۔
“افغانستان میں کیا ہونے جا رہا ہے؟ تحریر : سید فحر کاکا خیل…” ایک تبصرہ