پشاور (دی خیبر ٹائمز پولیٹیکل ڈیسک) امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی حکومت ضم اضلاع کے عوام کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ، فراڈ اور وعدہ خلافی کر رہی ہے۔ان کو انضمام کے ثمرات، مرکزی دھارے میں لانے اور ترقی سے محروم رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جماعت اسلامی ان کو حقوق دلانے اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لئے بھر پور احتجاجی تحریک چلائے گی جس میں آل پارٹیز کانفرنس، احتجاجی مظاہرے اور دھرنے، شٹر ڈاؤن ہڑتال، پارلیمنٹ کے اندر بھرپور احتجاج اور وزیر اعلی ہاؤس کے گھیراؤ سمیت تمام آپشنز استعمال کیے جائینگے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے صوبائی ہیڈ کوارٹر المرکز اسلامی پشاور میں ضم اضلاع کے ذمہ داران کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سابق امیر جماعت اسلامی فاٹا حاجی سردار خان، سابق ایم این اے صاحبزادہ ہارون الرشید، ضلع خیبر کے امیر محمد رفیق آفریدی سمیت تمام قبائلی اضلاع کے امراء موجود تھے۔سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ جون 2018ء میں 25ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ضم اضلاع وجود میں آئے،آئینی ترمیم کے ذریعے 120سالہ کالے قانون ایف سی آر کا خاتمہ کیا گیا۔فاٹا کا انضمام ایک پیکج کے ساتھ کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ضم اضلاع میں ترقیاتی کاموں کے لیے ہر سال 100ارب روپے کے حساب سے دس سال کے لئے ایک ہزار ارب روپے پیکج دیے جانے کا اعلان کیا گیا۔پیکج میں 3فیصد این ایف سی، چالیس ہزار ملازمتیں، 2023ء تک ہر قسم کے ٹیکسوں سے چھوٹ، انصاف کی مفت اور فوری رسائی کے لئے عدالتوں تک رسائی، ہر قسم کے خوف اور بدامنی سے بچنے کے لئے پولیس نظام، ٹی ڈی پیز کی باعزت واپسی، عوام کے مالی نقصانات کی تلافی سمیت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے،،تھری جی اور فور جی اور دوسری سہولیات تک رسائی شامل تھی۔ لیکن بدقسمتی اورپی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے فاٹا کواس پیکج میں سے کچھ نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بتائے کہ دو سالوں میں خرچ ہونے والے دو سو ارب روپے کہاں گئے؟ انہوں نے کہاکہ حکومت دو سال میں ضم اضلاع میں نہ ہسپتال بنا سکی اور نہ ہی کوئی تعلیمی ادارہ بنا سکی۔ باقی پاکستان میں 4اور 5گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور فاٹا میں چار پانچ گھنٹوں کے لئے بجلی آتی ہے۔تھری جی اور فور جی جیسی بنیادی سہولت وفاقی اور صوبائی حکومت فراہم نہیں کرسکی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس مالیاتی وسائل موجود ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جنوبی وزیرستان میں ابھی تک کوئی گا ئنو کالوجسٹ نہیں ہے،عمران خان فاٹا صرف ووٹ مانگنے گئے، انتخابات کے بعد کوئی بھی ضم اضلاع میں نہیں گیا۔آئی جی پی خیبر پختونخوا، پشاور پولیس اور صوبائی حکومت ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سے پولیس کو کنٹرول کررہے ہیں۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پی خود نئے ضم اضلاع کا دورہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا ابھی تک کچھ پتا نہ چل سکا،کوکی خیل، تیراہ اور وزیرستان کے ٹی ڈی پیز ابھی تک واپس نہ جاسکے۔ وہاں پہ بھتہ خوری، ماورائے عدالت قتل اور ٹارگٹ کلنگ کا مسئلہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی ناکامی ہے کہ ابھی تک انصاف اور سیکورٹی فراہم نہ کرسکے۔حکومت ضم ہونے والے اضلاع نے دھوکہ کیا اور اس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بارڈر ٹریڈ نئے ضم اضلاع کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس وقت بارڈر ٹریڈ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کی نگرانی میں افغانستان جانے والے ٹرکوں سے 50ہزار بھتہ وصول کیا جارہا ہے،1200ٹرکوں کی بجائے سو ایک بیس ٹرک ہی بارڈر پار جارہے ہیں۔ یہ پاکستان اور سابقہ فاٹا کا نقصان ہے۔ بارڈر ٹریڈ چیک پوسٹوں کو فوری طور پر کھولا جائے۔ سرکاری محکموں کی جانب سے بھتہ خوری کا سلسلہ بند کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ضم اضلاع کے محبت وطن عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے حقوق کے لئے صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی، سینیٹ، میڈیا میں، گلی کوچوں، چوکوں اور چوراہوں میں آواز اٹھائیں گے۔
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments