Kjaved834@gmail.com
تحریر: جاوید خان
ماحول میں موجود ہ کرونا نامی وائرس سے پیدا ہونے والے صورتحال نے انسان کو بدرجہ اتم حیران و پریشان کر رکھا ہے۔نظر نہ آنے والے اس پر اسرار دشمن کے ہاتھوں اب تک2لاکھ 37ہزار کے لگ بھگ انسانوں کے اموات ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔عالمی ادارہ صحت کی اعداد شمار بتا رہی ہے کہ33لاکھ 63ہزار افراد کرونا وائرس کے مریض ہے اپنوں سے الگ تلگ بے یاروں مدد گار پڑے ہیں۔اب تک کوئی دوائی یا وویکسین تیار نہیں ہوئی جس سے اس وبا کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور بیمار صحت یاب ہو سکے۔ سیکنڑوں نوبل یافتہ سائنسدانوں کے بنائے ہوئے ادویات اور الات کرونا نامی وائرس کے کیخلاف پہلے ہی بے بس ہو چکے ہے جو لوگ صحت یاب ہو رہے ان میں کسی کا بھی کوئی کمال نہیں وہ اپنے اند ر موجو ہ مدافعتی نظام سے ٹھیک ہو رہے ہیں۔ صرف سائنس ہی نہیں بلکہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی معاشی صورتحا ل کے سامنے معاشیات کے عالم بھی پریشان حال ہے۔یہ بات خوش ائند ہے کہ کرونا کیخلاف جنگ میں کچھ ویکسین اور ادویات ٹرائل کے مرحلے میں ضرور ہیں اور جلد یا بدیر انسان اس مرض سے چٹکارا پا لے گا۔ عالمی ادارہ برائے صحت کی جانب مخصوص ایس او پیز کیساتھ دنیا میں ہیلتھ ایمرجنسی نافزالعمل ہے جس کا مقصد انسان کو وائرس سے بچانا ہے جس پر ہر خطے میں کسی نہ کسی شکل عمل جاری ہے جس خاطر خوا نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔یو رپ اور امریکہ میں لوگ شدید زہنی کوفت کے بعد زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں حکومتی سطح پر سماجی اور معاشی سرگرمیاں رفتہ رفتہ بحال ہو رہی ہے۔کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان کو کرونا وائرس سے کیا سبق سیکھنا چاہی؟ سبق صرف ایک ہی ہو سکتا ہے کہ انسان کو روئے زمین پر اپنے حدود میں رہنا ہوگا۔بطور انسان ہم سب کو یہ بات زہین نشین کر لینی چاہی کہ روئے زمین پر رہتے ہوئے ہمارے کچھ حدود ہے جس طرح ہمارے معاشی،سماجی مزہبی سسٹم یا نظام ہیں بالکل ٹھیک اسی طرح زمین پر انسان ایک ایکو سسٹم کا شہری ہے۔روئے زمین پر موجودہ ہر ایک چیزپانی جنگلات پہاڑ مٹی کو اپنے فائدہ کے لئے استعمال کرنا اور بے دریغ استعمال کرنا انسان کی سب سے بڑی غلطی ہے اس سسٹم کو اگریہ اپنے ہی ھاتھوں سے بگاڑیں گے خراب یاکمزور کرئینگے تو اس کا نقصان بالاخر اس کو ہی کو ہوگا یہ نقصان کبھی وائرس کی شکل میں تو کبھی قدرتی افات کی شکل میں انسان پر حملہ آور ہوگا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والی تنظیم Intergovernmental Panel on Climate Change (IPCC) نے سال 2013-14میں اپنے ایک رپورٹ میں انسان کے ہاتھوں مختلف جانوروں کے مسکن خاتمہ سے پیدا ہونے والے ذونیٹک (Zoonotic-Diseases)کا تفصیل سے زکر کیا ہے جس کے بارے میں تفصیلی رپورٹ سال 2020-21میں شائع ہوگی جس میں انسان کی ماحول میں بگاڑ سے ہونے والے مختلف اقسام کے وائرس کا پھیلاؤ کا اخاطہ کیا گیا ہے۔ ہمیں ماحول کیساتھ ایک جامع ایس او پیز کے تحت رہنا ہوگا ایسی طرز ززندگی اپنانا ہوگی جس میں جاندار (living)اورغیر جاندار (Non-living)دونوں کے بقا کے لئے تمام لوازمات کا پورا پورا خیال موجود ہوں انسان زمین پر موجود ہر چیز کا مالک نہیں ہے یہاں ہزاروں انواع و اقسام کے چرند پرند ہیں ان کے سمندروں،دریاؤں،جنگلات میں مسکن ہیں ان کی بقا میں ہمارے ایکو سسٹم کی بقا ہے انسان کی بقا ہے۔ آ ج ہم دیکھ رہے اور سائنسی بنیادوں پر تو یہ بات اب مکمل طو ر پر اشکارہ ہوچکی ہے کہ انسان ایک وائرس کی مانند ماحول پر اور اس میں موجود ہ نظام پر مسلط ہوچکاہے جس کی وجہ سے ماحول ہو چکا ہے بقول کچھ سائنسدانوں کے کہ یہ تو بلکل ہسپتال کے سٹیچر پر ہے۔ اور اگر انسان نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ دن دور نہیں جب اس کی حالت وینٹی لیٹر رکھے ہوئے مریض جیسے ہو جائے گی اس لئے حکومتی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے لئے بین القوامی سطح بنائی گئی پالیسوں پر من عن عمل کرناہوگا تمام تر قیاتی منصوبوں کو کلامیٹ چینج کی نظر سے تیار اور مکمل کرنے ہونگے۔خیبر پختو نخوا حکومت کو بھی ماحول میں ہونے والے تبدیلوں کے لئے اپنے اپ کو تیار کرنا ہوگا کلامیٹ سے متعلق کئی سالوں سے نامکمل منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنا ہونگے جنگلات ہوں یا جنگلی حیات کی حفاظت صوبائی حکومت کو اس حوالے سے جلد سے جلد ضروری قانون سازی اور اس پر عمل کو یقینی بنانا ہوگی۔عوامی سطح ماحول کے بچاؤ اوراس حوالے سے اگاہی اور ماحول دشمنی جیسے عوامل کی سرکوبی وقت کا تقاضا ہے ہماری حکومت کو اس میں مزید دیر نہی کرنی چاہی۔